Thursday 29 March 2012

Ghazala

یں شمیم بہار کا رہنے والا ہوں ۔ میری عمر 35 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں میری بیوی سروت اک خوب صورت چوت کی مالک ہے اپنے مستانی چوت پر اسے بہت ناز ہے ۔
سہاگ کی وہ نا دان اور خوب صورت حسینہ آج اک مست رنڈی ہے جوانی کی اس پہلی یادگار رات کو جب میں اپنی اس مست جوانی کی شلوار اتاری تو جانھٹوں سے صاف چوت
میں سے مستا نی مہک آری تھی۔
ہم دونوںاکثردن میں مست چودای کا حسین کھیل کھلتے ہیں ٹی وی پربیلوفلم چل رہی ہوتی ہے 
اور دیکتھے ہی دیکتھے ہم دونوں اک دوسرے کی چوت اور میں کھوجاتے وہ اکثرمدہوشی میں اتراتی ہے سالے حرامی مادر چوت 70 سال کا بڈھا بھی میری چوت درشن کر لے تو اس کا بھی لنڈ رال ٹپکا دے ہم دونوں شراب تو نہیں پیتے لیکن جوان مہکتے جسم سے نکلتے شراب ضرورپیتے ہیں 
میری بیوی اور میں اپنے اپنے پیشاب کو گلاس میں نکال کر اس کی چسکی کے سات 
مست چودای کا مزا لتے اس مست جوانی کا انداز بھی اتنا مست ہوتا ہے کہ وہ چو ت کےس ات سات وہ گانڈ بھی مرو اتی تھی اصل میں یہ کہانی میری بہن کی ہے
میری اک پیاری سی چھوٹی بہن غزالہ ہے غزالہ مجھہ سے دو سال چھوٹی ہے ہم دونوں اک دوسرے کو بہت پیار کرتے ہے وہ کافی چنچل ہے اور حسین بھی میڑک تک آتے آتے ہم دونوں بھایی بہن نے جوانی کی دیلیز پر قدم رکھہ غزالہ کی نھنی نھنی چچیاں نکل آیی تھی اور میرے لنڈ کے اس پاس ہلکے ہلکے بال نکلنے تھے 
اکثررات میں اماں کو ابا سے اپنی چوت مرواتے دیکھا تھا پتا نہی تھا کہ یہ کون سا کھیل ہے دونوں ننگے ہوتے اماں ابا کا لنڈ چوستی اور ابا اماں کی چوت اور پھر اماں کے حسین ننگے جسم کو پکڑ کر ابا اپنا موصل جیسا لنڈ اماں کی چوت میں پیل دیتے اک دبی سی چیخ سنایی دیتی ہاے بیٹی چوت مار ڈالا میری نازک چوت پھٹ جاےگی لیکن ابا اک بھوکے جانور کی طرح اماں کی مست چوت کا مزا لتے اماں کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑ ہوتی اور ابا مستی میں اماں کی مست چوت میں اور دکھے مارتے مارتے ٹنھڈے ہوجاتے 
میڑک پاس کرکے مجھے آگے پڑھنے کےلیے شھر جانا پڑا اس بیچ میں چھٹیاں میں گھرآتا غزالہ کی جوانی میں دن بہ دن نھیکر تا جارہا 
غزالہ کی جوانی مدمست ہوگیی گورے جسم رسیلے ہونٹ سڈول چھاتیاں جیسا کہ حیس گڑیا 
میں بھی پورا جوان ہو چکا تھا گھر میں چنچل مدہوش حسن کو دیھک کر میرے لنڈ میں کسمسھاٹ ہونے لگتی کثر کام کے دوران اس کی چھاتیاں پر نظر پڑتی دل میں خیال آتا 
کیوںنا اس جوانی کا مزا لوٹو اور اپنی گڑیا کو بھی لنڈ کا مزا چھکاوں آخر میرے ساے میں 
اس کی مدہوش جوانی پروان چڑی ہے اس طرح اسکی حسین چوت پر میرا بھی حق بنتا اخر کوی نہ کوی مرد اس کی چوتکو چودے گا پھر کیوںنا میں ہی اس کی مستانی جوانی کا مزا لو
گرمیوں کے دن تھے میں اپنے کمرے میں ‎غزالہ کے مدہموش حسن کے خیال میں ڈوبا اپنے لنڈ کو آ ھستہ آ ھستہ سہلارہا تھا کہ یکا یک کمرے کا دروازہ کھلا جلدی سے میں نے اپنا کھڑا لنڈ لنگی کے اندر ڈال لیا سامنے ‎‌غزالہ چاے لےکر کھڑی تھی ۔تھوڑا جھجکی 
اور چاے ٹیبل پر رکھہ کر چلی گی شاید لنگ کے اندر کھڑے لنڈ پر اس کی نظر نہیں پڑی 
تھی خیال آیا کیوں نہ دوسرے دن بھی ایسا کیا جاے اگر اس مست جوانی نے تھوڑا بھی ریسپانس دیا تو بات بن جاےگی دوسرے دن ذیادہ ہمت کی اور میں نے اپنی لنگی اتار کر الگ کردی اور لنڈ کو اپنے ہاتھوںلیکر سہلانے لگا اور جب وہ چاے لیکر کمرے میں آیی تو میں نے جلدی ناھی کی بگل میں پڑیی لنگی سے اپنے ننگے بدن کو ڈھک لیا لیکنلنڈ کھلا ہی رہا اک بار غزالہ ٹھٹکی اک نطر میری طرف دیکھاپھرترچھی نطر سے کھڑے لنڈ کو دیکھا اور چپ چاپ ٹیبل پر چاے رھکہ کر واپس چلی گی 
مجھے لگا کی اس کی مست جوانی میں ہلکی سی ہلچل تو ضرور ہویے نہی تو وہ شرماکے الٹے پیروں کمرے سے نکل جاتی اور پھراسے چودنے کی چاہت میںمیرا بدن میں آگ لگا دی اواواواواواو میری پیاری گڑیا غزالہ اور میں جھڑ گیا
اتوار کا دن تھا اماں اورابا شادی میں گيے ہوے تھے اور دوسرے دن لوٹنے کا پروگرام 
تھا بھیا میںنے کھانا لگاری ہو آپ ڈاینیگ روم میں آجاو حنا ( نوکرانی) کہا ں ہے میں نے پوچھا وہ پڑوس میں گیی ہے غزالہ نے کہا میں نے موقع غنیمت سمجا ۔ اپنی پیاری بہن کے کورے بدن کا مزا لوٹنے کا اس سے اچھا موقع اور کہا ں ہوسکتا ۔
غزالہ تم نے کہانا کھا لیا ۔ ہا ں بھایی جان 
میری کھانے کی بھوک ختم ہوچکی تھی اور غزالہ کی جوانی کی بھوک سے لوڑے میں تناو آنے لگا تھا میں چپکے سے کیچن گیا اور پیچھے سے غزالہ کو دبوچ لیا 
بھایی جان یہ کیا کررہں میںری غزالہ بس تھوڑا سا میںنے اسے دبوچتے ہوے کہا
بھایی جان میں آپکی اپنی چھوٹی بہن ہوں 
بہن ہو تو کیا ہوا اک مست جوانی بھی تو ہو یہ رسیلے ہونٹ کسیی کسی چھاتیاں۔اوریہ مستانی چوت اور میںنے شلوار کے اوپر سے چوت پر ہاتھہ رکھہ دیا ۔
غزالہ میں تیرے پیارے بھایی سے پہلے اک جوان مرد ہوں اور تیری اس حیسن جوان جسم پر میرا بھی حق ہے 
حرام ذادے مجھے چھوڑدے 
غزالہ چلایی تو بڑا کمینہ
اور بھایی تو اپنی بہنوں کی عزت بچاتے ہیں۔اورتو ہی اپنی ہی بہن کی عزت پر ہا تھہ ڈال رہا ہے 
سالی رنڈی چپ تیرے جیسی مصوم کچی کلی پرہر رشتہ قربان ہے اور جوان لنڈ تو صرف چوت پہچانتا ہے ۔
ماں بھابی بہن کے رشتےکے کیا مطلب اسکےلیے معنہ نہں رکھتے 
کتے اچانک غصے میں اسنے میرے منہ پر تھوک دیا اورمجھے تھپڑمارنے لگی غزالہ میری بانہوںمیں بری طرح جھٹپٹا ری تھی لیکن میری گرفت سے نکلنا آساں نہں تھا 
میںحالت کو قابومیں کرنے کے لیے اسکے دونوں ہاتھہ کو جکڑکر گود میں اٹھا کر اماں کے کمرے میں بیڈ پر پٹک دیا یہ وہی بیڈ تھا جس پر میں نے اپنی اماں کو کیی بار چود واتے 
دیھکا تھا اور آج میں اپنی بہن کی عزت اسی پر لوٹنے جارہا تھا 
غزالہ کا جھٹپٹانا جاری تھا اک ہاتھہ سے میں اسکے رونوں ہاتھہ پکڑہوے تھا اور دوسرے ہاتھہ سے اسکی قمیص پھاڑنے لگا جسےجسے اس کے کپڑے پھٹتے گیے اسکا حسین گورا بدن دیھکہ کر میری چودایی کی پیاس اور بھی تیزہوگی اور اب شلوار کی باری تھی شلوار پھٹتے ہی غزالہ کی ننگی مست
چوت میرے سامنے تھی اک ہاتھہ اسکے چوت پرلگایا اور تیزی سے رگڑنے لگا
بھیامجھے چھوڑدے میری عزت مت برباد کرو غزالہ پھر چلای۔
لیکن میں کہاں مانے والا اس کو جکڑے ہوے میںنے پاجامہ کھولا اور موصل سا لنڈ باہرتھا مجھہ پر رحم کر بھیا میں تھمارے ہاتھہ جوڑتی ہوں غزالہ سیسکنے لگی
چپ بھوسڑی والی آج میں تیری چوت کامزالےکر رہیوں گا کویی مادر چوت تیری مدہوش جوانی کا مزالوٹ نہی سکا وہ نامرد ہے اور میںنے اسے دوچار تھپڑ لگا دیں تھپڑکچھہ زور سے لگ گے جسکی وجہ سے اس کے منھہ سے خون نکلنے لگا مجھے اسکی پروا نہی تھی غزالہ نے میرےتیوردیھکہ کرجھٹپٹانا کم کر دیا اور سسکنے لگی حرمزادی روتی کیوں ہے چپ چاپ چودنے دے تجھے بھی مزا آے گا میںنے کہا میں نے ہوشیار یی سے اپنےہونٹ اسکی چوت پر رکھہ دیے اور اسکی چوت چا نٹے تھوڑی دیر بعد غزالہ نے رونا بند کردیاشاید چوت چانٹے میں مزا آنے لگا میں سھمج گیا کے غزالہ پر بھی جوانی کا نشہ چڑھ رہا ہےمیںاپنےہونٹ اس کی چھاتیاں پر گاڑدیا اوراپنے لنڈ کا سپراچوت کے ہونٹ پرٹکا دیا
بھیامیری عزت مت لوٹوں میں برباد ہو جاو گی غزالہ چلای یمیں نے دیکھا کے غزالہ آسانی سے چوت ناہی دے گی زبردستی چودناہوگا
اسے دبوچے ہوے میں تیزی سے لنڈ گھیسڑ دیا پہلے تو نرڈ چوت کے ہونٹوں کو چیرتا ہوا گھستا گیا پھر چوت کی سیل نے اس کا راستہ روک لیا غزالہ درد سے چیحنح لگی لکین میں کہاں صبر کرنے والاتھا اپنے ہاتھہ اس کے منہ پہ رکھہ کر پورے جسم کا زورلنڈ پر دیےدیا لنڈ اک جھٹکے سے چوت کی جھلی پھاڑتا ہوا اندر چلا گیا
ہ ہ ہ ہ ہ ہاہاہا ای ای ای ایآآآآآآآآآ غزالہ چیخ آٹھی کوری چوت پھٹ چکی تھی
نکال کمینہ بہت درد ہورہے نہیں تو میری جان نکل جاے گی000000 ااااااااماںمجھے اس حرامی سے بچالے غزالہ سسکنے لگی اوی
پہلی بارچوادیی میں تو درد ہوتا ہے اور پھر کویی تو تیری چوت پھاڑتا ہی غزالہ خاموش رہی شاید سمجھہ تھی کہ وہ لوٹ چکی ہے تھوڑی دیر پہلے کی کلی پھول بن آگی ہے
بھیاتھوڑی دیر روک جاوں درد ہو رہا
غزالہ سسکنے لگی اوہی اویی ااااا آآآآآآ اب مزا آرا ہے توڑا زور سے کرو 
غزالہ کی چوت زورزور سے جھٹکے مارنا شروع کردیے غزالہ بھی چوت اٹھا کر میرا ساتھہ دینے لگی بھاییاور زور سے چود بڑا مزا ارا ہے آ ا ا ا اآواواواوا اویاویاوایاومیں جنت میں پہچ گی ہوں اااااااا بھیییییاااااااااااااااااااااچودمجھے چود اور زور سے خود غزالہ دیوانی ہوری تھی 
غزالہ میری رانی اب میں جھڑرہا ہوں ہاہاہاہ میرالنڈ اندر ہی جھڑ گیا میری جان 
بھیا میں بھی اب جھڑی ہاے میری چوت اور ہم دونوںجڑ گیےتھوڑی دیر تک یونہی میں غزالہ کی چھا تیاں منہ میں دباے پڑا رہا اب چھوڑ بھی اپنی بہن کو سالے سب رس پی جاے گا یا بعد کلیےبھی کچھہ چوڑے گا میری گڑیا اک چودای میں بہن چود نبا دیا 
میں نے جسے ہی دروازہ کی طرف نظر اٹھی حنا کھڑی مسکرای رہی تھی وہ مسکراتے ہوے ہمارے پاس آیی اور غزالہ کو پیار کرکے بولی آج تم بہن بھایی نے یہ ثابت کردیا کے دو جوان جسم کا اک ہی رشتہ ہوتا ہے چوت اور لنڈ کا 

My Teacher Shahida

 دوستو میری ایک اور کوشش آپ سب سے درخوست ہے کہ غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں، یہ کہانی اسی دن شرو ع ہو گئی تھی جب میں نے اپنے کالج کی کیمسٹری لیب میں پہلا قدم رکھا تھا ، میرا سامنا شاہدہ سے ہوا جو لیب اسسٹنٹ تھی اور اس نے میری لیب میں داخلے کا پرچہ تیار کیا تھا، شاہدہ مجھے پہلی نظر میں اس لیے بھا گئی کیونکے وہ ایک چھوٹے قد کی مگر بھر پور جسم کی مالک تھی بڑے اور بھاری ممے اور اس کے ساتھ پتلی کمر اور خوبصورت ترشے ہوے چو تڑجب وہ چلتی تو دونوں کی حرکت سے پورے جسم میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی تھی، بہرحال میرا اسے پسند کرنے کا ایک مقصد اس کا کم وژن ہونا بھی تھا یہ آپ کو آگے چل کر سمجھ میں آ جایے گا شروع کے دنوں میں شاہدہ نے میری نظروں کو نظر انداز کیا مگر میری مسلسل نظروں کی گستاخیوں کو زیادہ دیر نظر انداز نہیں کر سکی شاید اس سے پہلے کسی لڑکے نے اس کو اتنا تا ڑا بھی نہیں ہوگا، آہستہ آہستہ کچھ دنوں میں اس نے بھی پگھلنا شرو ع کر دیا اور میرا لیب میں استقبال بڑی میٹھی مسکراہٹ سے کرنا شرو ع کر دیا اور اس کا رویہ میرے ساتھ بے تکلفانہ ہو گیا تھا، ہماری اس دوستی کی وجہ سے شاہدہ نے مجھ کو کافی مدد بھی کی پڑھائی میں اور میری کیمسٹری بھی اچھی ہو گئی، پڑھائی کے دوران جب وہ پرکٹیکل کرواتی تھی میں اس کے چو تڈوں کو دباتا رہتا تھا یر پھر سہلاتا رہتا تھا ، میری اس حرکت کا اس نے کبھی بھی برا نہیں منایا ، ایک دن میں نے اسے کہا کے کہ میرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ اس کے ہونٹوں اور مموں کو خوب زور سے چوسوں میری بات سن کر شاہدہ نے کہا کے دو بجے کے بعد میں لیب میں آ جاؤ کیونکے دو بجے کے بعد لیب بند ہو جاتی ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کیونکے پھر وہ لیب اندر سے بند کر کے اپنا کام مکمل کرتی ہے، جب میں لیب سے باھر جا رہا تھا تو پیچھے سے شاہدہ نے کہا کہ بجا ے دو کے بعد ، دو سے تھوڑا پہلے آجانا ، میں نے پوچھا اس کی وجہ ، تو وہ کہنے لگی کہ اس وقت تین چار لڑکے ہوں گے ان کے سامننے تم آ کر درخواست کرنا کہ تمہارا پرکٹیکل خراب ہو گیا ہے اور تمھیں دوبارہ کرنے کی اجازت دی جایے میں میں سب کے سامنے منا کر دوں گی، تم سب کے سامنے خوب گڑگڑا کر پھر درخواست کرنا ظاہر ہے پھر دوسرے بھی تمہاری خاطر مجھ سے درخوست کریں گے تو میں تمھیں اجزت دے دوں گی اور پھر کام آسان ہو جایے گا ، یہ سن کر میں کلاسس سے باھر نکل گیا مگر مجھے شاہدہ کی شہوت بھاری مسکراہٹ سکوں نہیں لینے دے رہی تھی بار بار میرا لنڈ کھڑا ہو جاتا تھا پینٹ میری بہت ٹائٹ تھی اس وجہ سے لنڈ کا ابھار بڑا وضا ے طور پر نظر آ رہا تھا ، میں نے اس وجہ سے اپنی قمیض باھر نکال لی تھی، کلاسس میں بلکل دل نہیں لگ رہا تھا بار بار شاہدہ کا خیال تنگ کر رہا تھا اس کے شہد سے بھرے ممے اور رسیلے ہونٹ بری طر ح سے تڈ پا رہے تھے میرا وقت بلکل بھی نہیں گزر رہا تھا خیر جیسے تیسے دو بجنے میں پانچ منٹ پر میں لیب میں تھا شاہدہ اس وقت چار لڑکوں کو پرکٹیکل مکمل کروا رہی تھی مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ آپ تو اپنی کلاسس ختم کر چکے ہیں، میں نے اس سے کہا کہ میرا پرکٹیکل غلط ہو گیا ہے اور میں آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے ایک موقع اور دے دیں کیونکے آج آخری دن تھا اور اب امتحان ہوگا یہ سب کر شاہدہ بولی کے اب تو وقت ختم ہو گیا ہے اور لیب بند ہو چکی ہے اور مجھے اپنا کام مکمل کرنا ہے اگر میں آپ کو وقت دوں گی تو مجھے بہت دیر ہو جایے گی میں آپ سے معافی مانگتی ہوں یہ سن کر میں نے بڑی رقت کے ساتھ گڑگڑا کے دوبارہ درخواست دوہرائی میری یہ حالت دیکھ کر دوسرے لڑکے بھی میرے حق میں بولنے لگے یہ سن کر شاہدہ نے ان لڑکوں سے کہا کے میں آپ لوگوں کی وجہ سے انہیں یہ موقع دے رہی ہوں، اور مجھے کہا کے آپ بیٹھ جایئں میں ان لوگوں کو فارغ کر کے پھر آپ کو دیکھتی ہوں مگر ان لوگوں کے جانے کے بعد مجھے دروازہ اندر سے بند کرنا ہوگا کیونکے اگر پھر مزید کوئی آ گیا تو میرے لیے مشکل ہو جایے گی، میں شاہدہ کا ان سن کے سامنے بہت بہت شکریہ ادا کیا اور سامنے کرسی پر بیٹھ کر اسے کام مکمل کرتے ہوے دیکھنے لگا شاہدہ نے دس منٹ لگایے ان سب کوفارغ کرنے میں اس دوران میں اس کے جسم کے حسین نشیب و فراز میں کھویا رہا اس دن اس نے گلابی قمیض اور سفید شلوار پنہی ہوئی تھی ریشمی شلوار قمیض میں اس کا جسم اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا، یہ کہنا بلکل بیکار ہے کہ میرا لنڈ اس وقت کتنی بری طر ح سے اکڑا ہوا تھا بلاخر شاہدہ نے سب کے جانے کے بعد اندر سے دروازے کو کنڈی لگا دی اور دروازے پر ہی کھڑے ہو کر میری طرف اپنے بازو کھول دیے مجھ سے انتظار بلکل نہیں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر میں دوڑ کر شاہدہ کے پاس پوھنچا ائر اس سے سختی سے چمٹ گیا میں نے جھک کر اپنے سینے سے شاہدہ کی چھاتیوں کو دبوچ لیا اور اپنے ہونٹوں سے شاہدہ کے ہونٹوں کی بڑی سختی کے ساتھ چسپاں کر دیا شاہدہ نے اپنی زبان میرے منہ میں دل دی جسے میں نے مزے لے لے کر چوسنا اور چاٹنا شرو کر دیا اب کبھی میں شاہدہ کی زبان چوستا تھا اور کبھی وہ میری اسی طر ح ہم دونوں ایک دوسرے کو چومتے اور چاٹتے جا رہے تھے جتنا مزہ مجھے آ رہا تھا اتنا ہی مزہ شاہدہ کو بھی آ رہا تھا میں نے اس کی نرم ملایم چھاتیوں کو سختی سے اپنے سینے میں جکڑا ہوا تھا مگر شاہدہ اس سے زیادہ زور لگا کر میرے سینے کو اپنی چھاتیوں میں دبا رہی تھی شاہدہ کو کو میں اس اپنے بازوں میں جکڑ کر اٹھایا ہوا تھا اور وہ اتنی ہکلی پھلکی تھی کے مجھے ذرا بھی محسوس نہیں ہوا اس دوران مجھے اچانک ایسا لگا کہ میرا لنڈ کہیں جکڑا لیا گیا ہے جس کی وجہ سے مجھے اور بھی لزت ملنی شرو ہو گیی ہم دونوں ایک دوسرے میں گم ایک دوسرے کے مزے لوٹ رہے تھے جتنا میں پیاسا تھا اس سے کہیں زیادہ وہ تڑپی ہوئی تھی ، میں نے شاہدہ کی قمیض اتارنی چاہی تو اس نے اپنے دونوں بازو اپر کر دیے میں شاہدہ کو نیچے اتر کر اس کی قمیض اتاری اور ساتھ میں برازئیر بھی اتر دی جی کی وجہ سے اس کی گول سرخ و سفید ممے کھل کر میرے سامنے آ گیے میں شاہدہ کے نیپل پر منہ لگانا ہی چاہتا تھا کہ اس نے مجھہے اپنی قمیض اور پینٹ اتارنے کو کہا یہ سن کر میں نے فورن اپنی پینٹ اور قمیض اتار دی ساتھ ہی میں نے نے اس کی سفید شلوار بھی نیچے کھینچ کر اتار دی اب ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے بلکل ننگے کھڑے ہوے تھے اور ایک دوسرے کو پیاسی اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے شاہدہ کی نظریں میرے لنڈ پے ٹکی ہویں تھیں میں شاہدہ سے کہا کے میں پہلے تمہارے ممے چوس لوں تھوڑی دیر تو وہ مسکرانے لگی اس کے ساتھ ہی میں نے اپنےہونٹ اور زبان سے دونوں ممے چاٹنے اور چوسنے شرو کر دیے جیسے جیسے میں شاہدہ کے ممے چوستا اور چاٹتا جا رہا تھا ویسے ہی ویسے وہ مستی میں بخود ہوتی جا رہی تھی اسے میرا اس کے ممے چوسنا اور چاٹنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا، مجھے بھی بہت مزہ آ رہا تھا ساتھ ساتھ میں شاہدہ کے چوتروں کو اپنی مٹھیوں میں لے کر مسلتا جا رہا تھا شاہدہ پوری طر ح سے مست ہو چکی تھی اور میرا جو بھی دل چاہ رہا تھا وہ میں کرنے کے لیا آزاد تھا ممے چوسنے کے بعد میں اپنے منہ کو اس کے پیٹ پر لیا اور اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا میرے ایسا کرنے سے اس کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا مگر میں نے سختی سے اسے اس کے چوتروں سے پکڑا ہوا تھا، شاہدہ کی مستی سے بھاری ہی آوازیں لیب میں گونج رہیں تھیں پھر میں نے شاہدہ کی ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی ایسا کرنے سے اس کی بالوں سے بھاری ہوئی چھوٹ میرے سامنے آ گیی میں نے اس کی چو ت پر جیسے ہی اپنی زبان لگی تو شاہدہ باختیار سسک اٹھی اور اس کے منہ سے نکلا ہاے میں مر گئی ظالم کیا کر رہے ہو میں نے اس پوچھا کیسا لگ رہا ہے تو وہ اور تڑپ گئی اور کہنے لگی تم بہت ظالم ہو مجھے اتنا ستا اور تڑپا رہے ہو میں پوچھا وہ کیسے تو وہ کہنے لگی تم تو میری چو ت چوسنے میں لگ جاؤ گے اور میری پیاس اور بڑھ جایے گی میں کہا تم پریشن نہ ہو میرے پاس اس کا بھی علاج ہے بس تم دیکھتی جاؤ پھر میں نے شاہدہ کو اپنے بازوں میں اٹھا لیا اور اس کے ہونٹوں پر دوبارہ اپنے ہونٹ جما دیے شاہدہ نے اپنے دونوں بازو میری گردن میں حمائل کر دیے اور اپنے آپ کو تھودا اور اوپر اٹھا لیا اور اپنی دونوں ٹانگیں میری کمر کے گرد کس لیں شاہدہ کے ایسا کرنے کے بعد مجھے ایسا لگا کے میرا لنڈ کسی بہت ہی نرم گرم اور چکنی جگہ پر رگڑ تھا رہا ہے میں نے اپنے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اندازے سے پھر اسی چکنی جگہ پر رگڑا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کے یہ شاہدہ کی چو ت ہے جو بری طر ح سے چکنی ہو رہی تھی نیرہ فولادی لوڑا جو بلکل سیدھا اکڑ کر شاہدہ کی چو ت پر اٹکا ہوا تھا اور صرف ایک دھکے کا انتظار کر رہا چو ے میں گھسنے کے لیے میں نے شاہدہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے اپنے لوڑے کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا میرا یہ جھٹکا لگنا ہی تھا کے شاہدہ کی ٹانگوں کی گریپ میری کمر پر اور سخت ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے ہونٹوں کو اور زور سے دبوچ لیا شاہدہ کے ایسا کرنے سے مجھے صاف اشارہ مل گیا اس کی رضامندی کا اب میں نے اپنے لنڈ کی پھولی ہوئی ٹوپی کو زور سے اندر گھسانا شرو کر دیا میرے اس زور دے دھکے نے میرے لوڑے کو کافی اندر داخل کر دیا میں شاہدہ کو دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر ایک سکوں سا آتا جا رہا تھا اس نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئیں تھیں اور سختی سے مجھ سے چمٹی ہوئی تھی، میں بھی مزے لیتے ہوے شاہدہ کے دونوں چوتروں کو اپنی مٹھیوں میں دبوچے ہوے آھستہ آھستہ اپنے لنڈ کو اس کی چو ت میں گھسیڑ رہا تھا شاہدہ کی چو ت بہت ٹائٹ تھی مگر میرے لنڈ کی سختی کے اگے اس نے بھی ہار ماننی شرو کر دی اور پھر چند لمحوں میں میرے ایک زور دار جھٹکے نے میرے لنڈ کو شاہدہ کی چو ت کی گہرایوں میں پوھنچا دیا، میرے پورے لنڈ کے گھستے ہی شاہدہ کی چیخ نکل گئی جس کے لیے میں پہلے ہی سے تیار تھا جیسے ہی اس کی چیخ نکلی ہاے میری ما ں میں مر گئی میں نے پھر اس ہونٹوں کواپنے ہونٹوں میں دبوچ لیا اور آہستہ آہستہ نیچے سے اپنے لنڈ کو اندر باھر کرنے لگا میری اتنے پیار سے جھٹکے لگانے سے شاہدہ کو بھی لطف آنے لگا اور اس نے بھی اپر سے نیچے ہلنا شرو کر دیا میں پہلے اپنے لنڈ کو نیچے لاتا تو شاہدہ اپنی چو ت کو اپر لے جاتی اور جیسے ہی میرے لنڈ کی ٹوپی شاہدہ کی چو ت کے سوراخ کے پاس پوھنچتی تو ہم دونو ایک جھٹکے کے ساتھ دوبارہ لنڈ اور چو ت کو ٹکرا دیتے ہمارے ایسا کرنے سے دونوں کو بہت مزہ آ رہا تھا مجھے شاہدہ پر بہت پیار آ رہا تھا، اور شاہدہ مجھ پر بری طر ح سے فدا ہوئی وی تھی ہمارے جہتوں کی آوازیں لیں میں گونج رہیں تھیں شاہدہ کی چو ت اور میرے لنڈ کے پانی نے شاہدہ کی چو ت کو بہت ہی گیلا اور چکنا بنا دیا تھا اور اس کی وجہ سے پچ پچ کی آوازیں نکل رہیں تھیں شاہدہ کی گریپ مجھ پر بہت سخت تھی اور میں نے بھی شاہدہ کو اپنے سے سے چمٹایا ہوا تھا، شاہدہ مجھ سے زیادہ تیزی سے اپنی چو ت کو میرے لنڈ پر اپر نیھے دھکے لگا رہی تھی جس کو وجہ سے ہم دوں کا لطف دوبالا ہوے جا رہا تھا، ہم دوں ایک دوسرے کو بے تحاشا چوم چاٹ رہے تھے مجھے لگ رہا تھا شاہدہ اور میں ایک دوسرے کے لیے بہترین چود ای پارٹنر تھے ، شاہدہ سے میں پوچھا اب اسی ہی طر ح چودنا ہے یہ کچھ اور کریں ، شاہدہ کہنے لگی کہ یہ میری پہلی یادگار چود ای ہے اس لیے جب تک وہ چھوٹ نہیں جایے گی اسی ہی طر ح سے دھکے لگاتی رہے گی ساتھ ہی اس نے مجھے کہا کے ایسے بہت مزہ آ رہا ہے میں اسے دھکے مارتا رہوں جب وہ چھوٹ جایے گی پھر کسی اور طریقے کے بارے میں سوچے گی کیونکے مجھے بھی اتنا ہی مزہ آ رہا تھا جتنا شاہدہ کو تو میں نے بھی کوئی جلدی نہیں کی اور اطمینان سے شاہدہ کو اس کے چوتروں سے پکڑ کر دھکے مارتا رہا کبھی ہمارے دھکوں میں تیزی آ جاتی تھی تو کبھی تھک کر آہستہ ہو جاتے تھے یہ پر لطف کھل ہم دوں کے بیچ میں بڑی مہارت کے ساتھ چل رہا تھا شاہدہ مجھ سے بہت خوش تھی اور اس اظہر اپنے گرمجوش اور گیلے بوسوں سے تھوڑی تھوڑی دیر میں دے رہی تھی اپنی زبان سے اس نے میرے چہرے کو چاٹ چاٹ کر گیلا کر دیا تھا اس کے دیکھا دیکھی میں بھی اس کے چہرے کو چاٹ رہا تھا جس سے وہ بھی بہت مہزوس ہو رہی تھی، پھر اچانک شاہدہ کے دھکوں میں بہت تیزی آ گئی اس کی مجھ پر گرفتسخت سے سخت ہوتی جا رہی تھی اور وہ مھجے بھی کہ رہی تھی کے میں اسے برق رفتاری سے کس کس کے دھکے ماروں ہم دوں کی اس تیز رفتاری کا نتیجہ آنا شورو ہو گیا شاہدہ ایک زور دار سانس اور جھٹکا لینے کے بعد ایک دم سے بری طر ح سے اکڑ گئی اور پھر اس کے جسم نے ایک زور دار جھٹکا خانے کے بعد بلکل مجھ پر ڈھیلی ہو کر بکھر گئی اب صرف میرے دھکے نیچے سے شاہدہ کی چھوٹ میں لگ رہے تھے شاہدہ کا چہرہ ایک دم سے مطمئن ہو گیا تھا اور میرے زور دار جھٹکوں سے اس کے کھڑے پر ایک مسکان سی پہیل گئی تھی اس نے مجھ سے کہا کے اسے اب اس کی چو ت میں میرے پانی کا پوارا پھوٹ [اڑنے کا انتظار ہے وہ میری منی کا مزہ اپنی چو ت میں محسوس کر کے اس کا مزہ لوٹنا چاہتی ہے، بہرحال تھوڑی دیر میں میرے لوڑے سے پانی چھوٹ گیا اور ایک پر لطف چود ای کا رنگین خاتمہ ہو گیا میرا پانی چھوٹنے کے بعد شاہدہ میری گود میں سے عطر آئی میں بھی تھک کر کرسی پر بیٹھ گیا، شاہدہ پھر دوبارہ میری گود میں آ کر بیٹھ گئی اور مجھے چومنے لگی مجھے بھی اس کے چومنے سے مزہ آ رہا تھا خاص طور پر جب وہ زبان سے زبان رگڑتی تھی تو بہت مزہ آتا تھا .
شاہدہ میری گود میں بیٹھ کر بیخودی کے ساتھ میرے چہرے پر اپنی زبان پھیر رہی تھی اس کی زبان کا لمس اور گیلا ہٹ نے میرے جسم میں دوبارہ بجلی کو دوڑا دیا اور میرا مرجھایا ہوا لند جو میرے اور شاہدہ کے پیٹ کے بیچ میں دبا ہوا تھا دوبارہ کھڑا ہونا شرو ع ہو گیا میرے لند کی سختی اپنے پیٹ پر دوبارہ محسوس کر کے شاہدہ کے چہرے پر دوبارہ شہوانی مسکراہٹ دوڑگئی اور اس نے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبوچ کر چوسنا شرو ع کر دیا اس کی اس بیتابی اور جوش نے مجھے بھی بہت زیادہ کھولا دیا اور میں بھی اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا، ٹھوڈی دیر کے بعد شاہدہ نے کہا سہیل تمھیں معلوم ہے مجھے تم سے چدوانا نہیں تھا صرف چوما چا ٹی اور ممے چوسوانے تھے مگر تمہارا لوڑا دیکھنے کے بعد مجھے بلکل بھی ہوش نہیں رہا میری چھوٹ میں اتنی جلن اور تکلیف ہو رہی ہے جس کی کوئی حد نہیں تم خود بھی دیکھ سکتے ہو تمہارا لوڑا بری طر ح سے میری چو ت کے خون میں لتھڑا ہوا ہے میں نے بھی جواب میں شاہدہ کو چومتے ہوے کہا کہ تم بلکل صحیح بول رہی ہو مجھے بھی نہیں لگتا تھا کے میں تمھیں اس لیب میں کھڈے کھڈے چود سکوں گا مگر دیکھ لو تم ایسے ہی چود گئیں یہ سن کر شاہدہ نے پوچھا تمہاری مہارت بتا رہی ہے کے تم نے کافی لڑکیوں کو چودہ ہوا ہے یہ سن کر مجھے ہنسی آ گئی اور میں نے شاہدہ سے کہا تم یقین کرو تم میری زندگی کی پہلی لڑکی ہو جسے میں نے ہاتھ لگایا ہے باقی رہی بات مہارت کی تو انٹرنیٹ زندہ باد جو بھی مہارت حاصل کرنی ہو وہ انٹرنیٹ پر موجود ہے یہ سن کر شاہدہ نے کہا کہ ہاں یہ بات تو بلکل صحیح ہے مجھے بھی جب اپنی پیاس بجھانی ہوتی ہے تو میں انٹرنیٹ کا ہی استمال کرتی ہوں کسی قسم کا خوف نہیں اور آرام سے مٹہ بھی لگ جاتی ہے یہ سن کر میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ اب ہم دونوں کو انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی یہ سن کر شاہدہ نے میرا لند سہلاتے ہوے کہا کے یہ تو ہے مگر اب ہم دوبارہ لیب لیب میں چو دائی نہیں کریں گے یہ تمہاری ذمےداری ہے کہ تم گھر کا انتظام کرو اور مجھے سکوں سے پلنگ پر لیٹا کر چودو یہ سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا اس دوران شاہدہ نے تھودا سا اٹھ کر اپنی ٹانگیں کھولیں اور میرے لند کو اپنی چو ت کی موری پر جما دیا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر نیچے اٹھنا بیٹھنا شرو ع کر دیا شاہدہ کے ایسا کرنے سے اور میرے لند کے پانی کی وجہ سے شاہدہ کی چو ت چکنی ہونی شرو ع ہو گی اور میرا لوڑا آسانی سے شاہدہ کی ٹائٹ مگر چکنی چو ت میں گھسنا شرو ع ہو گیا شاہدہ اب بڑی مہارت کے ساتھ میرے لند کو اپنی چو ت میں اندر باہر کر رہی تھی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے کندھے جکڑے ہوے تھے اور وقفے وقفے سے مجھے چومتی جا رہی تھی شاہدہ کی دیوانگی اپنے عروج پر تھی اور میں اسے اتنی بیخودی کے ساتھ چو واتے ہوے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کے شاہدہ کا کہنا بلکل صحیح تھا مجھے شاہدہ کو چود نے کے لیے اب کوئی باقاعدہ انتظام کرنا ہو گا، کیونکے جتنا مزہ مجھے آ رہا تھا اتنا ہی مزہ شاہدہ کو بھی آ رہا تھا اور میں چاہتا تھا کے ہم دوں اس وقت کو مل کر خوب انجویے کریں اس دوران شاہدہ کے جھٹکے میرے لند پر متواتر لگ رہے تھے اور ساتھ ساتھ شاہدہ کی سسکیاں بھی نکل رہیں تھیں جو مجھے اور بھی زیادہ مست کر رہیں تھیں پھر شاہدہ اچانک مجھ سے بڑی سختی سے لپٹ گی اور اس کے جسم میں بڑی زور کے جھٹکے لگنے لگے اور ساتھ ساتھ اس جسم بھی کاپنے لگا اور پھر وہ ایک دم سے بیجان ہو کر مجھ پر گر پڑی میرا لند ابھی نہیں چھوٹا تھا مگر میں نے شاہدہ کو ایسے ہی اپنے اوپر پڑا رہنے دیا اور اپنے لند کو شاہدہ کی ٹائٹ چو ت کی گہرایوں میں ہی پڑا رہنے دیا اور اس کی کمر سہلا نا شرو ع کر دیا شاہدہ کے ماتھے پر پسینا پھیل رہا تھا اور اس کا جسم ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا شاہدہ اب تھوڑی شرمندہ سی لگ رہی تھی میں اس سے پوچھا کے ایسا کیوں ہوا تو وہ کہنے لگی کے بس اس بار میں جلدی چھوٹ گی ہوں اور اب تمہارا لند میری چو ت کو تکلیف پوہچا رہا ہے میں نے پوچھا کے اب میرا کیا ہو گا تو وہ کہنے لگی کے پریشان کیوں ہوتے ہو چو ت نہیں تو کیا ہوا میں تمہاری مٹہ مر دوں گی اور تم یقین کرو تمھیں چو ت سے زیادہ مزہ آئے گے یہ شاہدہ کا تم سے وعدہ ہے یہ سن کر میں نے شاہدہ کی چو ت میں سے اپنا اکڑا ہوا فولادی لند باہر نکال لیتا میرے لند کے باہر نکالے سے شاہدہ ایک دم پر سکوں ہو گی اور اس کی سانسیں دوبارہ اعتدال پر آ نا شرو ع ہو گئیں ساتھ ہی ساتھ شاہدہ میری گود میں ہی آنکھیں بند کر کے سستانے لگی ایک ہاتھ اس ننے میرے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سیٹ میرے لند کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر نیچے دبتی اور سہلاتی جا رہی تھی تھوڑی دیر اس طر ح آرام کرنے کے بعد شاہدہ میری گود سے اتر کر زمین پر میری ٹانگوں کے بیچ میں بیٹھ گئی ایک ہاتھ سے اس نے میرے لند کی ٹوپی کو دبوچا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ میرے ٹٹو ںکو سہلا رہی تھی شاہدہ کی اس حرکت نے مجھے بلکل ہی پاگل کر دیا میں اس کے گالوں اور سر پر اپنے ہاتھ پھیررہا تھا اور وہ میرے لند کو خوب زور زور سے مسل رہی تھی اور پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے مٹہ مارنی شرو ع کر دی شاہدہ جیسے جیسے مٹہ میں تیزی لا رہی تھی میرے اندر ایک لاوا سا بہکتا جا رہا تھا کافی دیر تک شاہدہ میری مٹہ مارتی رہی مگر میرا پانی تھا کے چھوٹ کے نہیں دے رہا تھا شاہدہ اب بڑی سفاکی کے ساتھ میرے لند کی ٹوپی کو رگڑ رہی تھی مگر جہاں میری لذتوں میں اضافہ ہو رہا وہاں شاہدہ کی تھکاوٹ بھی بڑھتی جا رہی تھی شاہدہ نے مٹہ مرتے ہوے مجھ سے پوچھا کے آخر تم اپنا پانی چھوڑ کر مجھے فارغ کیوں نہیں کر دیتے ہو میں بہت تھک گئیں ہوں میں نے کہا کے شاہدہ میں تو چاہتا ہوں مگر پتا نہیں کیوں میرا پانی نہیں چھوٹ رہا اب یہ تمہاری مرضی ہے جو بھی تمہارا دل چاہے وہ کرو اس بات چیت کے درمیان شاہدہ کا چہرہ میرے لند کے بہت ہی قریب آ گیا اور شاہدہ اب مٹہ مارتے ہوے میرے لند کی ٹوپی کو بڑے غور سے گھور رہی تھی میرے لند کی ٹوپی رطوبت کی وجہ سے چکنی ہو رہی تھی اور شاہدہ کی مٹہ مرنے کی وجہ سے پھولی ہوئی وی تھی اچانک شاہدہ نے اپنے ہاتھ کو میرے لند کی جڑ میں روک کر اسے وہیں سے سختی سے پکڑ لیا اور میرے لند کو اپنے چہرے پر مارنے لگی کبھی اپنے ماتھے پر مارتی کبھی اپنے گالوں پر رگڑتی شاہدہ کے ایسا کرنے سے مجھے اور بھی مزہ آ نے لگا اور وہ مجھے اور بھی پیاری لگنے لگی پھر بلاخر وہ ہوا جس کا مجھے انتظار تھا مگر میں خود سے شاہدہ سے کہنا نہیں چاہ رہا تھا، شاہدہ نے میرے لند کی ٹوپی اپنے ہونٹوں میں دبوچ لی اور اپنی زبان میرے لند کی ٹوپی پر پھیرنے لگی واہ کیا لمحے تھے میں بلکل مدہوش ہو چکا تھا اور شاہدہ کا مکمل رحم و کرم پر تھا مگر اب شاہدہ میرا پورا خیال کر رہی تھی اور میرے لند کی ٹوپی کے نیچے کا حصہ جو اس کے منہ سے باہر تھا وہ اس نے اپنے ماموں کے بیچ میں دبا لیے تھے اس وقت مجھے لگا کے شاہدہ میرے لیے لازم و ملزوم بن چکی تھی میں اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہنے کا نہیں سوچ سکتا تھا بہرحال شاہدہ اب میرے لند کی ٹوپی کو بڑی رغبت اور شہوت کے ساتھ چاٹ چاٹ کر چوستی جا رہی تھی کبھی وہ اپنے دانتوں سے میرے لند کی ٹوپی کو کچوکے بھی لگا دیتی تھی جس میرے جسم میں مزید بجلیاں سی دوڑ جاتی تھیں اب شاہدہ کو اس بات کی فکر نہیں تھی کے میں کب چھوٹوں گا بجاے اس کے اب وہ خود دوبارہ کھولنا شرو ع ہو گئی تھی اور میرے لند کو چوسا اسے چدنے سے بھی زیادہ اچھا لگ رہا رہا تھا شاہدہ میرے لند سے کھیل رہی تھی اور مجھے بےتحاشا مزہ آ رہا تھا اچانک مجھے خیال آیا کے کیوں نا میں بھی شاہدہ کی چو ت چوسنا اور چاٹنا شرو ع کر دوں اس طر ح ہم دوں کا کام بھی ہو جایےگا شاہدہ میرے لند کو بڑی شاد و مد سے چوس رہی تھی جب میں نے شاہدہ سے کہا کے وہ ذرا اپنے چوتر میرے منہ کے سامنے کر دے تکے میں اس کی چو ت کو چوسنا شرو ع کر دوں اور وہ ساتھ میرے لند کو چوستی رہے یہ سن کر شاہدہ بہت خوش ہوئی اور میرے ہونٹوں کو چومتی ہوئی میرے اوپر چڑھ کر الٹی لیٹ گئی اب میرے سامنے شاہدہ کی بھیگی ہوئی بالوں سے بھری ہوئی چو ت تھی اور شاہدہ دوبارہ سے میرے لند کو اپنے مموں کر بیچ میں دبوچ کر میرے لند کی تپوئی چوسنا شرو ع کر چکی تھی میں نے بھی شاہدہ کی چھوٹ میں اپنا منہ دے کر اس کی چو ت کو زور زور سے بھنبھوڑنا شرو ع کر دیا میری اس حرکت کی وجہ سے شاہدہ کو بھی جھٹکا لگا اور اس نے بھی جوابن میرے لند کو اپنے دانتوں سے کچوکے مارنے لگی اب جیسے میں شاہدہ کی چو ت کے ساتھ زیادتی کرتا تھا وہ اس کے جواب میں میرے لند کی ٹوپی کے ساتھ زیادتی کرتی تھی ہمارے اس کھیل کی وجہ سے دونوں ہی مست ہووے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلے جا رہے تھے میں نے شاہدہ سے کہا کے اب میں زیادہ دیر تمہارا مقابلہ نہیں کر سکوں گا بس اتنا بتا دو کے جب میرا پانی چھوٹنے والا ہو گا تو میں کیا کروں تمہارے منہ میں چھوڑ دوں یا یا پھر تم پانی کا فوارہ دیکھنا پسند کرو گی یہ سن کر شاہدہ نے کہا کے کے میں فوارہ دیکھوں گی اگلی مرتبہ میں پی جاؤں گی مگر میں اس بار تمہاری بےپناہ طاقت کا مظاہرہ دیکھنا پسند کروں گی اور ساتھ ہی دوبارہ میرے لند کو اپنے ہونٹوں میں چبانے لگی میں تو چھوٹنے ہی والا تھا مگر شاہدہ کی اس حرکت نے ایک دم ہی میرے لند کو جھٹکا دیا اور میں نے چیخ کر شاہدہ سے کہا کے لند کو منہ سے نکال لو یہ سنتے ہی شاہدہ نے میرے لند کو اپنی مٹھی میں لے زور زور سے مسلنا شرو ع کر دیا اور پھر ایک زور دار پچکاری کے ساتھ میرے لند نے پانی اگلنا شرو ع کر دیا ساتھ ہی ساتھ میں نے بھی زور زور سے شاہدہ کی چو ت کے چوسنے کے عمل کو تیز کر دیا اور اگلے ہی لمحے شاہدہ کے جسم نے بھی جھٹکے لینا شرو ع کر دیے اور پھر وہ ٹھنڈی پڑ گئی میں نے شاہدہ کو اپنے اوپر سے اتار کر صوفے پر لیٹا دیا وہ بلکل بے سدھ ہو کر صوفے پڑ لیٹ گئی پھر میں نے اپنے لند کو واش روم میں جا کر دھویا اتنی دیر میں شاہدہ بھی واش روم میں آ گئی گو کہ شاہدہ کو چلنے میں تھوڑی تکلیف ہو رہی تھی مگر پھر بھی وہ بہت خوش تھی اس نے بھی اپنی چو ت کو دھویا اور پھر ہم دوں نے کپڑے پہنے اور لیب کو بند کر کے کولج سے باہر نکال آے میں شاہدہ کو اس کے ہوسٹل اتارا اور پھر اپنے ہوسٹل آ کر شاہدہ کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا کیونکے شاہدہ نے بائیک سے اترتے ہووے مجھے دوبارہ یاد دلایا کہ اگلی چو دای کا مجے کہیں بہتر انتظام کرنا ہے شاہدہ نے بائیک پر مجھے پیچھے سے جکڑ کر پکڑا ہوا تھا اور میرے دل پر اپنی انگلیاں پھیرتی رہی سارے وقت اس کی اس مہبت نے مجھے اور بھی بچیں کر دیا تھا اور اب مجھے شاہدہ کو مستقل اپنے ساتھ رکھنے کا انتظام کرنا تھا، 
دوستوں میرا خیال تھا کے میں اس کہانی کو یہاں پر ہی ختم کر دوں گا مگر یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا اپنی قیمتی آرا سے کھل کر نوازئے کیونکے اس سے مجھے اپنی لکھائی میں مہارت حاصل کرنے میں مدد ملے گ

My Litle Ciusin

 ان دنوں کی بات ہے جب میں ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا۔میں ٹیوشن اپنے گھر پر ہی پڑھایا کرتا تھا میری اس وقت تک شادی ہوچکی تھی۔ مگر شام میں مجھے گھر کے خرچے پورے کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھانا پڑتی تھیں۔ سو میرے شاگردوں میں کافی لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔ ان میں ہی ایک لڑکی تھی جسکا نام سونیا تھا اسکی عمر تقریباً بائیس سال تھی اور وہ گریجویشن کی اسٹوڈنٹ تھی کافی ڈل اسٹوڈنٹ تھی مجھے اس پر کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔ وہ میری بیوی سے کافی فری تھی۔ مگر اسکی حرکتیں مجھے کچھ مشکوک لگتی تھیں۔ وہ تھی بھی بڑی خوبصورت بڑا دل کرتا تھا اسکے ساتھ سیکس کرنے کا اور ایسے ویسے نہیں جانوروں کی طرح جنگلی جانوروں کی طرح ۔ خیر ایسا ہوا کہ میرے سالے کی شادی ہو رہی تھی میری بیوی نے مجھے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ پورے ایک ہفتہ کے لیے اپنے میکے جائے گی۔ تو میں نے حامی بھر لی تھی مگر میں نہیں جاسکتا تھا کیونکہ اسٹوڈنٹس کے پیپرز کا وقت قریب تھا اور سونیا کی فکر زیادہ تھی مجھے۔ اس لیے میں ان لوگوں کو چھٹیاں نہیں دےسکتا تھا۔ سونیا کا گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا، اور وہ آجکل کافی دیر دیر تک میرے پاس رہ کر اپنے پیپرز کی تیاری کر رہی تھی۔ میری بیوی اب میکے جاچکی تھی۔ گھر پر میں اکیلا تھا۔ یا پھر آفس سے واپس آنے کے بعد میرے اسٹوڈنٹس۔ جو کہ رات کو دیر تک میرے ساتھ ہوتے تھے۔ ایکدن میں نے سونیا سے کہا تم بہت آہستہ چل رہی ہو پیپرز بہت نزدیک ہیں تم کو زیادہ وقت دینا ہوگا۔ اس نے کہا میں کیا کروں میں نے کہا رات کو مزید دیر تک رکو۔ اس نے حامی بھرلی۔ پھر اسی دن میں نے اپنے اسٹوڈنٹس کو کہا کہ آپ لوگ اب جلدی چلے جایا کریں کیونکہ میری نیند پوری نہیں ہورہی ہے۔ اور آپ لوگوں کی تیاری تو تقریباً ہو ہی چکی ہے اس لیے اب زیادہ دیر تک اگر پڑھنا ہے تو اپنے گھروں پر پڑھیں۔ سب اس بات کے لیے تیار ہوگئے میرا اصل مقصد سونیا کے ساتھ وقت گذارنا تھا۔ میں دل میں ٹھان چکا تھا کہ اسی دوران جب تک میری بیوی اپنے میکے ہے اسکو چود ڈالوں پھر پتہ نہیں ایسا موقع ملے کہ نہیں۔ 
خیر اگلے دن سے میرے اسٹوڈنٹس جلدی جانے لگے اور مجھے کافی وقت سونیا کے ساتھ ملنے لگا۔ اگلے دن سونیا نے کہا آج وہ رات کو دیر تک میرے پاس رکے گی اور پڑھے گی کیونکہ سارے گھر والے ایک شادی میں جارہے ہیں اور رات کو بہت دیر میں واپسی ہوگی۔ جب میرے بھیا آئیں گے مجھے لینے تو میں جاؤں گی۔ چونکہ میری بیوی سے سونیا کی کافی دوستی تھی لہذا اسکے گھر والے سونیا کو میرے پاس چھوڑنے پر فکرمند نہیں تھے اور ویسےبھی انکے علم میں نہیں تھا کہ میری بیوی آجکل اپنے میکے میں ہے۔خیر میں نے سوچا آج ہی موقع ہے سونیا کو دل بھر کے چود لوں پتہ نہیں دوبارہ یہ موقع ملتا ہے کہ نہیں۔ خیر میں آفس سے واپس آیا تو سونیا ذرا دیر بعد ہی آگئی اور میری باقی اسٹوڈنٹس بھی۔ آج سونیا نے ایکدم ٹائٹ شلوار قمیض پہنا ہوا تھا جس میں وہ کسی سیکس بم سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی۔ سارے اسٹوڈنٹس سمجتھے تھے کہ سونیا میری رشتہ دار ہے اور اس بے فکری سے میرے گھر میں گھومتی تھی جسکی کی اجازت کسی اور اسٹوڈنٹس کونہیں تھی۔ خیر میں سونیا کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا تو اس بھی جواب میں مسکراہٹ پیش کی ۔ اور یہ بڑی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ جو کہ میں اسوقت سمجھ نہ سکا۔ خیر دو گھنٹے بعد میرے اسٹوڈنٹس چلے گئے پھر میں نے سونیا سے کہا چلو کھانا کھا لیتے ہیں پہلے پھر پڑھیں گے ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور میرے ساتھ کچن میں آکر کھانا گرم کرنے میں میری مدد کرنے لگی۔ اس دوران کچن میں مختلف چیزیں اٹھانے کے چکر میں گھومتے چلتے پھرتے میں دو تین بار سونیا سے ٹکرایا ایک بار اسکی گانڈ سے ٹکرایا مگر وہ کچھ نہ بولی۔ بلکہ مسکرا کر چپ رہی۔ خیر پھر ہم دونوں ٹیبل پر پہنچے کھانا لے کر اور ساتھ ہی کھانے لگے ۔ کھانے سے فارغ ہوکر میں تو باتھ روم چلا گیا اور باتھ لے کر نکلا مگر سونیا برتن وغیرہ سمیٹ کر دھو کر فارغ ہو کر اسٹڈی روم میں تھی اور کتابیں کھولے پڑھ رہی تھی میں اپنے نائٹ ڈریس میں تھا کیونکہ سونیا کے جانے کے بعد مجھے سونا ہی تھا۔ سونیا نے مجھے دیکھا نہیں دیکھا تھا میں نے اس سے پوچھا کیا پڑھ رہی ہو تو وہ ایکدم چونک کر مجھے دیکھنے لگی اورپھر خود کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگی کچھ نہیں بس یونہی میں نے کہا چلو اب پڑھائی شروع کرتے ہیں۔ اس نے کتاب بند کر کے ایک طرف مجھ سے دور رکھ دی اور اپنی دوسری ایک کتاب اٹھا کر وہ کھول لی میں نے اس سے کہا سونیا وہ کتاب دینا جو تم پڑھ رہی تھی ابھی۔ وہ یہ سنتے ہی ایکدم گھبرا گئی اور کہا سر وہ کورس میں شامل نہیں ہے غلطی سے میں ساتھ کے آئی تھی۔ میں نے کہا ہے تو کتاب ہی نا مجھے دو تو سہی پھر اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی کتاب میرے ہاتھ میں دے دی کتاب کا کوئی ٹائٹل نہیں تھا میں نے کتاب کھولی تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ایک سیکسی کہانیوں کی کتاب تھی جس میں تصویریں بھی تھیں۔ میں نے سونیا کی جانب دیکھا تو وہ نظریں نیچے کیئے ہوئے تھی اور اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسکے نزدیک پہنچا تو مجھے پتہ چلا اسکی سانس بھی کافی تیز چل رہی تھی۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ اسکے برابر بیٹھ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فوراً ہی اسکو اپنے لنڈ پر رکھ دیا وہ جیسے ہوش میں آگئی۔ ایکدم ہڑبڑا کر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھا اور کہا آج تم شام سے کافی بدلی بدلی اور اپنی اپنی سی لگ رہی تھی اب سمجھ آیا کہ وجہ کیا تھی۔ وہ کچھ نہیں بولی اور نظریں نیچے کر لیں ۔ میں نے ہمت کر کے اسکے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اسکے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی کس کی اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ پھر میں نے اسکے ممے پر ہاتھ رکھ دیا وہ ایکدم کسمسا اٹھی۔ اب مجھ سے برادشت نہ ہوا اور میں نے اسکو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں حیران رہ گیا جب میں نے محسوس کیا کہ سونیا نے بھی مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا ہے اور مجھے اپنے سینے میں بھینچ رہی ہے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرا آدھے سے زیادہ کام تو ہوچکا تھا۔ میں نے مزید وقت ضائع کیئے بغیر اسکی قمیض میں ہاتھ ڈالا اور اسکے ممے کو پکڑ لیا اور دبانے لگا اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔ اور اسکے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ وہ میری جانب دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھی اور آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند تھیں۔ میں نے ایک بار پھر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے مگر اس بار میں نے ایک لمبی کس کی اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے دونوں مموں کو دباتا رہا جس سے وہ کافی گرم ہو گئی تھی تقریباً چدنے کے لیے تیار۔ اب میں نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اسے کہا چلو میرے ساتھ وہ چپ چاپ میرے ساتھ کھڑی ہوئی میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسکو لے کر اپنے بیڈ روم میں آگیا ۔ بیڈ کے پاس پہنچ کر میں نے اسکو کھڑا کیا اور اسکو اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اسکی کمر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اسکے کولہوں تک لے گیا اور انکا مساج کرنے لگا اس نے اپنے کولہے سکیڑ کر سخت کر لیے۔ پھر میں نے اسکے گالوں پر کسنگ کی اس نے جو قمیض پہنی تھی اسکی زپ پیچھے کی طرف تھی میں نے واپس کمر تک ہاتھ لے جاکر اسکی زپ کھولی اور اسکی قمیض کو ڈھیلا کردیا۔ اسکی قمیض اسکے شانوں سے ڈھلک کر نیچے آگئی تھی۔ اور اسکا بریزر صاف نظر آرہا تھا جس میں سے اسکے بڑے بڑے دودھیا رنگ کے ممے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ میں نے اسکی قمیض کو اسی پوزیشن میں چھوڑ کر اسکی شلوار پر حملہ کیا اور میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ وہ شلوار میں الاسٹک استعمال کرتی ہے۔ میرے لیے تو اور آسانی ہوگئی تھی۔ میں نے ایک ہی جھٹکے سے اسکی پوری شلوار زمین پر گرا دی وہ خاموش کھڑی صرف تیز تیز سانسیں لے رہی تھی مگر کچھ نہ کہہ رہی تھی اور نہ ہی مجھے روک رہی تھی۔ اب میں نے اسکی قمیض کو بھی اسکے بدن سے الگ کیا وہ صرف برا میں رہ گئی تو اسکو اس تکلف سے بھی آزاد کردیا اب وہ پوری ننگی میرے سامنے ایک دعوت بنی کھڑی تھی میں نے اسکے پورے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔اسکا بدن ایکدم چکنا اور بھرا بھرا تھا اسکا جسم کافی گرم ہو چکا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ ہاتھ اسکی چوت کی جانب بڑھایا اور اپنی انگلی جیسے ہی اسکی چوت میں ڈالی وہ گیلی ہوگئی اسکا مطلب وہ کافی آگے جاچکی تھی اب مجھے اپنا کام کرنا تھا میں نے اسکو بیڈ پر چلنے کو کہا۔وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے دیکھنے لگی ۔ میں نے انتظار نہیں کیا اور میں بھی بیڈ پر چڑھ گیا اور اسکے اوپر لیٹ کر اپنا لنڈ اسکی ٹانگوں کے بیچ اسکی چوت کے منہ پر پھنسا دیا۔ اور اسکو چوت پر رگڑنے لگا۔ وہ بے حال ہو رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ پہلے کبھی اس نے سیکس کیا ہے اس نے کہا ہاں ایک بار میں خوش ہوگیا کیونکہ اب زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ میں نے بیٹھ کر اسکی ٹانگیں کھولیں اور اسکی چوت کے منہ پر لنڈ کو سیٹ کیا میرا لنڈ اسکی چوت کے پانی سے گیلا ہو کر چکنا ہوچکا تھا اور اندر جانے کو بے تاب تھا۔ میں نے تنے ہوئے لنڈ کو ایک زور دار جھٹکا لگایا اور میرا لنڈ اسکی چوت میں داخل ہوگیا اور اسی لمحے سونیا کا سانس ایک لمحے کو رکا پھر تیز تیز چلنا شروع ہوگیا۔ میں نے تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا کیونکہ پورااندر جانے کے لیے اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ضروری تھا۔ بس میں نے تھوڑا سا پیچھے کیا لنڈ کو اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا پورا لنڈ اسکی چوت کے اندر داخل ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اسکے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں۔ اسکو اپنے جسم میں میرا سخت تنا ہوا لنڈ محسوس ہوا تو وہ نشے میں بے حال ہونے لگی اور بے تحاشہ مجھے چومنے لگی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا مجھے چودو جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ سننا تھا میری اندر بجلی دوڑ گئی اور میں نے لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کردیا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ میری رفتار میں اضافہ ہوتا رہا وہ جلدی جلدی چھوٹ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا رکو میں ابھی آیا اس نے کہا کہاں جا رہے ہیں میں نے کہا کہیں نہیں ابھی آتاہوں میں کچن میں گیا اور وہاں ایک ٹیبلیٹ اسی وقت کے لیے رکھی تھی وہ میں نے نگلی جلدی سے اور واپس آیا اور پھر سے اس کی چوت میں اپنا لنڈ داخل کیا اسکو نہیں معلوم تھا اب اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اب میں نے آہستہ آہستہ سے چودنا شروع کیا۔ مگر وہ چاہتی تھی کہ میں اپنی رفتار تیز کروں مگر میں انتظار میں تھا کہ ٹیبلیٹ کا اثر شروع ہو جائے وہ بہت تیز اثر کرنے والی ٹیبلیٹ تھی جو میں اکثر اپنی بیوی پر بھی استعمال کرتا تھا۔ تقریباً پانچ منٹ اسی طرح گذرے اور وہ تڑپتی رہی کہ میں اسکو پہلے والی رفتار سے چودوں ۔ اب میں نے محسوس کیا کہ ٹیبلیٹ اثر کر رہی ہے اور میرا لنڈ مکمل سخت ہے اور لاوا اگلنے کے موڈ میں نہیں ہے میں نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بے تحاشہ جھٹکوں سے اسے چودنے لگا۔ وہ بے حال ہو رہی تھی اسکی آہوں سے زیادہ چیخیں نکل رہی تھیں اور وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں اب رکنے والا تھا بھی نہیں۔بہرحال وہ اس دوران تین بار فارغ ہوئی اس کی ہمت جواب دے رہی تھی میں نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور کہا ابھی میں فارغ نہیں ہوا ہوں تم گھوڑی بنو اسکو اسکا تجربہ نہیں تھا اس نے میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے اسے بتایا کیسے گھوڑا بننا ہے وہ سمجھی تھی میں شاید پیچھے کی طرف سے اسکی چوت میں لنڈ داخل کرونگا جیسے ہی وہ گھوڑی بنی میں نے اپنا لنڈ اسکی گانڈ پر رکھا اور پوری طاقت سے اسکو اندر داخل کردیا میرا لنڈ کسی پسٹن کی طرح چکنا اور گیلا تھا اور اسکی گانڈ بھی اسکی چوت سے بہہ کر آنے والے پانی سے گیلی تھی میراپورا لوڑا اسکی گانڈ میں ایک ہی بار میں گھس گیا اور وہ درد سے بلبلا اٹھی مگر میں باز آنے والا کب تھا۔ میں نے اسکو جکڑ لیا اور وہ کوشش کرتی رہی میری گرفت سے نکلنے کی مگر میں نے اسکو نہیں چھوڑا ذرا دیر بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی اس نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا۔ مگر میں نے انکار کردیا اور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر میں وہ خاموش ہوگئی اس نے خود کو پورا میرے حوالے کیا ہوا تھا۔ بس میں نے اسکی رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار میں ایکبار پھر سے اآگیا اسکے ممے بری طرح سے ہل ہل کر اسکے چہرے سے ٹکرا رہے تھےاور وہ بھی پوری ہل رہی تھی اس نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا چلو نیچے زمین پر اسکو زمین پر لاکر میں نے پیٹ کے بل اسکو بیڈ پر اسطرح لٹایا کہ اسکے گھٹنے زمین پر تھے اب میں بھی اسی پوزیشن میں آگیا اور پھر سے لنڈ اسکی گانڈ میں داخل کیا اب میں نے پورا لنڈ اندر ڈال کر مزید اسکی گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لنڈ کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا ۔ جس سے ایک بار پھر اسکی چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ بالاخر میرا وقت پورا ہونے لگامیں نے اس سے کہا میں تمہاری گانڈ میں ہی منی نکال رہا ہوں نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا میں نے جیسے ہی وقت آیا پورا لنڈ اسکی گانڈ میں گھسیڑا اور میرے لنڈ نے منی اگلنا شروع کردی۔ وہ شاید دو تین بار کی منی تھی جو ایک ہی دفعہ میں نکل رہی تھی کیونکہ ٹیبلیٹ سے میں نے اسے روکا ہوا تھا۔ وہ میری منی کے ہر ہر شاٹ پر کپکپا رہی تھی۔ اور اس نے کہا یہ تو بہت گرم ہے مجھے بخار لگ رہا ہے۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہے یہ گرمی ہے اسکو انجوائے کرو۔ یہ گرمی پیدا بھی تو تم نے ہی کی تھی۔ پھر آخر میں نے لنڈ باہر نکالا اور وہ سیدھی ہو کر مجھے حیرت سے دیکھنے لگی ۔ اس نے کہا آپ انسان تو نہیں لگتے پہلے جب میں نے سیکس کیا تھا تو اتنا وقت تو نہیں لگا تھا جتنا آپ نے لگایا ہے یہ کہہ کر وہ اٹھی اور مجھ سے لپٹ کر مجھے چومنے لگی ۔ اسکے بعد وہ میرے لنڈ کی دیوانی ہوگئی مگر اسکو کیا پتہ تھا کہ میں نے کیا کیا ہے اسکے ساتھ ۔ بعد میں بھی کئی بار اسکو چودا۔ اور وہ ہمیشہ خوش رہی کہ سکو اتنا موٹا اور اتنا زیادہ مزے دینے والا لنڈ ملا ہ

Home Sex

 میرے گھر میں میرے والد اور والدہ رہتے تھے ایک بڑی بہن تھی جسکی شادی ہوچکی تھی۔ اور وہ امریکہ سیٹل ہوچکی تھی۔میری امی نے ایک ماسی رکھی جو اچھی خاصی عمر کی تھی مگر وہ اپنے ساتھ ایک اپنی نواسی کو لاتی تھی جسکی عمر تو پندرہ سال تھی مگر اسکا جسم کسی اٹھارہ سال کی سیکی لڑکی کی طرح تھا ۔ اس ماسی کی بیٹی فوت ہوچکی تھی جسکے بعد اس نواسی کی پرورش کی ذمہ داری اس پر آپڑی تھی۔ خیر کچھ ہی مہینوں میں وہ ماسی اور اسکی نواسی ہمارے گھر میں ایڈجسٹ ہوگئے، اور ہم نے ان دونوں پر اور ان دونوں نے ہم پر بھروسہ کرنا شروع کردیا۔ میں ویسے تو خاصہ شریف لڑکا تھا مگر سیکس کا ایسا بھوکا کہ جو بھی مل جائے چھوڑتا نہیں تھا۔ میرے گھر اور دوستوں میں کسی کو میری ان حرکتوں کا علم نہ تھا۔میرے والد ایک بزنس مین تھے اور انکا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ اکثر کسی نہ کسی شہر میں جاتے رہتے تھے۔ میری امی کا گھر بھی دوسرے شہر میں تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ابا کو اپنے بزنس کے لیے دوسرے شہر جانا تھا اسی شہر میں امی کا میکہ بھی تھا ابا امی کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے ملاقات کر لیں۔ امی ابو کا یہ دورہ تقریباً ایک ہفتہ کا تھا مجھ سے بھی پوچھا گیا مگر اگلے دن میرا یونیورسٹی میں ٹیسٹ تھا تو میں نے کہا آپ لوگ جائیں میں آپ لوگوں کے پیچھے آجاتا ہوں۔میری بات سن کر امی اور ابا راضی ہوگئے۔امی ابا تو اسی دن روانہ ہوگئے اور میں گھر میں اکیلا رہ گیا۔ ابھی صبح کا وقت تھا میں ناشتہ کر کے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ ماسی اور اسکی نواسی کام کرنے آگئے۔ میں نے ماسی سے کہا امی اور ابا گئے ہیں دوسرے شہر تم کو پتہ ہے جو جو کام کرنا ہے وہ سب کرلو کوئی بتائے گا نہیں تمہیں اس نے کہا آپ بے فکر رہو عامر بیٹا میں سب کر لونگی۔ یہ کہہ کر وہ دونوں سب سے پہلے کچن میں برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں۔ذرا دیر بعد ماسی کی نواسی جسکا نام زرینہ تھا وہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی، میں تھوڑی دیر دیکھتا رہا پھر ماسی سے پوچھا "زرینہ کو کیا ہوا ماسی؟"
"اسکو بخار ہے صبح سے۔" ماسی نے جواب دیا۔
"تو تم اسکو کام پر نہ لاتی نا یہ اور بیمار ہوجائے گی" میں نے ہمدردی سے جواب دیا۔ جسکو سن کر زرینہ نے تشکر آمیز نظروں سے میری جانب دیکھا۔
"میں اکیلے کیسے اتنا سارا کام کرتی، ابھی اور بھی تو گھروں میں جا کر کام کرنا ہے" ماسی نے جواب دیا۔
"تم نے اسکو دوا دلائی؟" میں نے ماسی سے سوال کیا
"نہیں ابھی گھر جا کر دے دونگی دوا" ماسی نے جواب دیا۔
" گھر تو تم شام تک جاو گی نا؟" میں نے ماسی سے پھر سوال پوچھا۔
"جی شام تک ہی جانا ہوگا" ماسی نے جواب دیا
"ایسا کرو تم اپنا کام کرو میں زرینہ کو دوا دلا کر لاتا ہوں۔" میں نے ماسی سے کہا
"رہنے دیں عامر صاحب آپ تکلیف نہ کریں۔" ماسی نے منع کرنے کے انداز میں کہا
"تکلیف کیسی تم لوگ اتنی خدمت کرتی ہو ہماری سارے گھر کا کام کرتی ہو یہ تو تمہارا حق بنتا ہے، بس تم اپنا کام کرو میں ابھی اسکو دوا دلا کر لاتا ہوں۔" یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو کہا" چلو ایسا نہ ہو کلینک بند ہو جائے۔"
زرینہ نے ماسی کی جانب دیکھا ماسی نے اسے ہاں میں سر ہلایا اور زرینہ میرے ساتھ چلی گئی کار میں بیٹھ کر میں نے زرینہ کی گردن پر اپنا ہاتھ لگایا اور کہا " تم کو تو کافی تیز بخار ہے تم کو آرام کرنا چاہئے تھا۔" زرینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اور خاموشی سے سر جھکا لیاخیر ذرا دیر بعد ہم دوا لے کر واپس آچکے تھے۔ میں نے ماسی سے کہا " ڈاکٹر نے اسکو مکمل آرام کرنے کو بولا ہے تم اسکو گھر چھوڑ کر پھر جانا اپنے دوسرے کام پر"
"صاحب گھر کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ تو کافی دور ہےاسکو ہمت کر کے جانا ہوگا میرے ساتھ " ماسی نے جواب دیا۔
"ڈاکٹر نے کہا ہے اگر آرام نہ کیا تو دوا اثر نہیں کرے گی طبیعت اور خراب ہوگی۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اسے آرام کرنے دو۔" میں نے جواب دیا
ماسی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی "صاحب میں اسکو گھر تو نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کام پر دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسکو شام تک آپکے گھر چھوڑ دوں؟ میں باجی سے بات کر لونگی۔" ماسی نے درخواست کی۔
ایک دم میرے دماغ میں منصوبہ بننے لگا۔ میں نے تھوڑا سوچا پھر کہا" باجی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ویسے بھی وہ ایک ہفتے بعد آئینگی۔ تم اسکو چھوڑ دو مگر شام میں ضرور واپس لے جانا ہوسکتا ہے میں گھر سے باہر جائوں تو یہ اکیلی کیسے رہے گی گھر میں۔" میں نے خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔
"صاحب آپ فکر نہ کریں میں شام میں آکر اسکو لے جائوں گی۔" ماسی نے بھی خوش ہو کر کہا۔
ذرا دیر بعد ماسی اپنا کام ختم کر کے چلی گئی۔ میں اور میرے گھر والے زرینہ کو ایک چھوٹی بچی کی طرح ہی ٹریٹ کرتے تھے وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ تھی بھی نہیں۔خیر ماسی کے جانے کے بعد میں ذہن میں منصوبہ بنانے لگا کہ کس طرح جلدی اپنی خواہش پوری کروں مگر مجھے ڈر بھی تھا یہ شور مچا دے گی۔ یا بعد میں کسی کو بتا دے گی۔
"تم نے صبح سے کچھ کھایا ہے؟" میں نے زرینہ سے سوال کیا۔
"جی تھوڑا سا کھایا تھا۔" زرینہ نے جواب دیا۔
"تم یہاں نہ بیٹھو یا تو صوفہ پر لیٹ جائو یا پھر اندر جا کر بیڈ پر لیٹو ایسے بیٹھی رہوگی تو آرام نہیں ملے گا۔" میں نے زرینہ کو کہا۔
" جی اچھا" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے میں لڑکھڑانے لگی تو میں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا دیا ، سہارا دیتے وقت میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ رگڑا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا تھا اسکے ممے زیادہ نہیں تو 32 سائز کے تو ہونگے۔
"تم تو کافی کمزور لگ رہی ہو، چلو میں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا ہوں۔" یہ کہہ کر میں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور اسکو بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر کچن میں جا کر اسکے لیے ایک سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے میں لے گیا۔
"چلو یہ کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا ہے" یہ کہتے ہوئے میں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ جواب میں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور میں نے ٹی وی آن کر لیا ۔ میں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی وقت کسنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ٹی وی اور میرے بیچ میں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسکو ہوش نہیں تھا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔ خیر وہ سین ختم ہوا تو میں نے چینل تبدیل کیا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حالات خراب ہو گئے ہنگامے شروع ہو گئے۔ میں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی کس جگہ گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ خیر میں سوچنے لگا کہ ماسی کیسے آئے گی اور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی میں نے بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے جو ایریا بتایا وہ میرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں کے حالات خراب تھے۔میں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا کہ وہ کس طرح آئے گی میرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے جواب دیا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔میں نے ماسی سے کہا اگر میرے گھر تک آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات میرے گھر پر ہی رکو۔ ماسی نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اور کہا وہ پوری کوشش کرے گی کہ زرینہ کو لینے آجائے۔ میں نے کہا تم زرینہ کی فکر نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر میں نے اسکی زرینہ سے بھی بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔ زرینہ بھی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد میں نے زرینہ کو دوا دے دی۔ اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئے گی تو میں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر میں روم سے باہر نکل گیا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی میں اپنے دماغ میں پلان کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب حالات کی وجہ سے۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو میں زرینہ کے ساتھ اپنی رات رنگین کر لوں۔میں نے ٹی وی لائونج والا ٹی وی آن کیا تو پتہ لگا شہر کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر میں کرفیو لگ گیا ہے۔میں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر میں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا گھر میں پھر بھوک لگنے لگی تو میں نے کچن میں جاکر کھانا گرم کیا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔ میں اسکے قریب گیا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا اس طرح کے میری انگلیاں اسکی قمیض کے گلے کے اندر تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔ اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔میں نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب میں وہ بھی مسکرائی۔ میں نے اس سے کہا چلو میں نے کھانا گرم کر لیا ہے چل کر کھا لو۔اس نے کہا میں پوری پسینے میں بھیگی ہوئی ہوں میں شاور لینا چاہتی ہوں میں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ میں گرم پانی سے شاور لینا۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور باتھ میں چلی گئی۔ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں ہے اندر میں نے جلدی سے تولیہ لیا اور اس سے کہا لے لو تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔اس نے ذرا سا دروازہ کھولا جب میں نظر نہ آیا تو مزید کھولا بس میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا میں ایک دم اسکے سامنے تولیہ ہاتھ میں لیے آگیا۔وہ پوری ننگی میرے سامنے تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا سیکسی لگ رہا تھا۔وہ ایک دم ہڑبڑا گئی اور میں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایا اور ایک سائیڈ پر ہوگیا اور پھر روم سے باہر نکل گیا۔ذرا دیر بعد وہ شرماتی ہوئی کھانے کی میز تک آئی۔ اور خاموشی سے چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔ میں نے پوچھا اب کچھ بہتر لگ رہی ہو تم ۔ وہ کہنے لگی جی اب کافی بہتر ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور کرفیو لگ گیا ہے نجانے تمہاری نانی کس طرح آئے گی تم کو لینے جس جگہ پر وہ ہے ابھی وہاں تو بہت ہی حالات خراب ہیں ورنہ میں تم کو خود چھوڑ آتا نانی کے پاس اگر وہ نہ آسکی تو تم کو رات یہیں رکنا ہوگا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔ ابھی ہم کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماسی کا دوبارہ فون آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اسی گھر میں ہے اور اب نکل نہیں سکتی اور نہ وہ گھر والے اسے جانے دے رہے ہیں کیونکہ شہر میں کرفیو لگا ہے۔ میں نے پوچھا تو میں تمہارے پاس لے آئوں زرینہ کو وہ اب کافی بہتر ہے۔ تو اس نے پھر درخواست کی کہ میں اسے کہیں نہ جانے دوں اور رات رکنے کی اجازت دے دوں میں نے کہا مجھے اعتراض نہیں مگر تمہاری نواسی پریشان ہے اسکو تسلی دو یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو فون دیا ماسی نے فون پر زرینہ سے نجانے کیا کہا ۔ کہ وہ کافی مطمئن ہوگئی۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش تھا اور یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ خیر زرینہ نے ہمت کر کے سارے برتن دھوئے۔کچن کی صفائی میں زرینہ کی مدد کرتا رہا۔ اور بار بار اسکے جسم کو بہانے بہانے سے چھوتا رہا۔ اور اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتا رہا وہ کبھی خوش ہوتی کبھی شرماتی کیونکہ اسکو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بلا ہے۔خیر وہ کام سے فارغ ہوئی تو میں نے اسکو کہا اب تم کو رات تو یہیں گذارنی ہے تو اسکو اپنا ہی گھر سمجھو۔ کسی بات میں شرمانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے تو کھائو کوئی منع نہیں کرے گا۔زرینہ کے چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔میں نے زرینہ سے کہا تمہاری دوا کا بھی وقت ہو گیا ہے تم دوا کھائو پھر ہم دونوں بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ کونسی دوا کھانی ہے اس نے دوا کھائی پھر ہم دونوں میرے روم میں آگئے۔میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اسکو سیکس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ فلم دیکھتی ہو تو اس نے جواب دیا کبھی کبھی دیکھتی ہے۔ تو میں نے پوچھا کیا اچھا لگتا ہے فلم میں تو اس نے جواب دیا گانے اور ڈانس۔ بس اب میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور ایک ویب سائٹ پر جا کر ایک سیکسی مجرا لگا دیا۔ پھر اس سے پوچھا ایسے ڈانس اچھے لگتے ہیں کیا۔ اس نے کہا ایسا تو کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے کہا چلوآج دیکھو۔اس مجرے میں وہ ڈانسر اپنے ممے ہلا ہلا کر دکھا رہی تھی اور کافی دفعہ اس نے اپنی شرٹ اوپر کر کے اپنے ممے بھی دیکھا دیے میں بغور زرینہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔بالآخر وہ وقت آیا جب اسکی سانس تیز ہوئی اور وہ بار بار اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرنے لگی۔ تو میں نے پوچھا کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا ڈانس؟اس نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا نہیں اچھا نہیں لگا۔ میں نے پھر پوچھا کیوں؟ اس نے کہا گندا ہے۔ میں ہنسنے لگا اور کہا کیوں گندا ہے وہ یہ دکھا رہی تھی اس لیے گندا ہے یہ کہتے ہوئے میں نے اسکے مموں کو چھوا اسکو ایک دم جیسے کرنٹ لگا۔ وہ ہراساں ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔میں نے کہا پریشان نہ ہو میں تو مذاق کر رہا تھا۔ پھر کہا چلو فلم دیکھتے ہیں میں نے ڈھونڈ کر ایک سوفٹ کور مووی نیٹ پر لگا دی۔ ذرا دیر میں اس پر سیکسی سین اسٹارٹ ہوگئے جو کسنگ سے اسٹارٹ ہوئے اور پھر گھوڑی اسٹائل پر ختم اور ایک کے بعد ایک سین ذرا دیر میں شروع ہو جاتا تھا۔میں اسکا سرخ ہوتا چہرے بغور دیکھ رہا تھا اسکی سانسیں بھی بے ترتیب ہورہی تھیں۔ میں نے چپکے سے منہ اسکے کان کے پاس کیا اور پوچھا کیسی ہے فلم؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور اپنے چہرے کے اتنے قریب دیکھ کر بدحواس ہو گئی۔میں نے ہمت کر کے اسکا ہاتھ پکڑا جسکو اس نے چھڑایا نہیں اسکو کیا معلوم تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ کیوں پکڑا ہے۔دوسرے ہاتھ سے میں نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے مزید نزدیک کیا اور ایک کس کی اسکے گال پر۔ اور آہستہ سے اسکے کان میں کہا تم بہت خوبصورت ہو زرینہ۔ میری بات سن کر اسکا چہرہ مزید سرخ ہوگیا مجھے اسکا جسم گرم لگنے لگا۔ مگر یہ گرمی کسی اور بخار کی تھی جو دوا سے اترنے والا نہیں تھا۔مجھے خوشی یہ تھی کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔میں نے مزید ہمت کی اور اپنا ایک ہاتھ اسکے ایک ممے پر رکھ دیااور اسکو ہلکا سا دبایا مجھے اسکے جسم میں کپکپاہٹ صاف محسوس ہو رہی تھی۔اسکی سانس اب اتنی تیز تھی جیسے کافی دور سے دوڑ کر آرہی ہو۔اسکا جسم کافی کم سن عمر کی لڑکی کا جسم تھا۔ مگر اسکے ممے اور اسکی گانڈ اتنی زبردست تھی کہ دیکھنے والا چودنے کی خواہش ضرور کرےگا۔ اب میں نے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور چوسنے لگا میں نے دیکھا کہ زرینہ نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور وہ مزہ لے رہی تھی۔میری اور ہمت بڑھی اور میں نے اسکو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور اپنے سینے سے چمٹالیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے بھی مجھے کسی فلمی ہیروئین کی طرح جکڑ لیا۔بس اب کیا تھا اب تو میں نے بے تحاشہ اسکو کس کرنا شروع کردیا۔وہ میری کسنگ سے ہی مدہوش ہونے لگی تھی۔ ابھی تو بڑی منزلیں باقی تھیں ابھی تو میری اس رانی کو انکا بھی مزہ چکھنا تھا۔اسکے ممے میرے سینے سے بری طرح مسلے جا رہے تھے مگر اسکو پرواہ نہیں تھی۔ وہ بھرپور مزہ لے رہی تھی۔اب میں نے کسنگ بند کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھا ۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے مدہوش ہو کر کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی اپنے ہاتھ کو جو میرے لنڈ پر تھا میرا لنڈ میری جینز سے باہر آنے کو مچل رہا تھا۔میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا کبھی دیکھا ہے کسی کو ننگا ؟ اس نے جواب نفی میں صرف سر ہلا کر دیا۔ میں نے پوچھا یہ جس چیز پر تمہارا ہاتھ ہے اسکو دیکھو گی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور نظر میری لنڈ پر گاڑ دی۔ میں نے اس حرکت کو مثبت جواب سمجھا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی جینز کی زپ کو کھولا اور اس سے کہا اپنا ہاتھ ڈالو اندر۔ اس نے ذرا بھی جنبش نہیں کی میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جینز کی کھلی ہوئی زپ پر رکھا تو اس نے خود کوشش کی ہاتھ کو اندر ڈالنے کی وہ تھوڑا جھجھک رہی تھی ورنہ میرا یقین یہ تھا کہ وہ بھی سب کچھ چاہ رہی ہے مگر اسکو کیا اندازہ کہ سب کچھ کیا ہے۔خیر کسی طرح اس کا ہاتھ میری زپ کے اندر چلا گیا اب میرے لنڈ اوراسکے نازک ہاتھ کے درمیان صرف انڈر وئیر تھی۔ میں نے پوچھا کیسا لگا تم کو یہ۔ تو اس نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیا۔بس اسی دم میں نے اپنی جینز کا بٹن کھول دیا اور اسکا ہاتھ باہر نکالا۔ اور فرش پر کھڑے ہو کر اپنی جینز اتار دی اب میں صرف انڈروئیر اور شرٹ میں تھا۔لنڈ بری طرح سخت ہو رہا تھاانڈروئیر میں جسکی وجہ سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔اس نے جیسے ہی مجھے ننگا دیکھا دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔مجھے اسکی اس ادا پر بہت پیار آیا۔میں اسکے قریب آیا اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر پھر سے رکھا اور کہا انکھیں کھولو۔ اس نے آنکھیں کھولی اور میری چھپے ہوئے لنڈ کو دیکھا۔ میں نے کہا چلو میری انڈر وئیر اتارو اس کے منہ سے بے اختیار نہیں نکلا۔ میں نے کہا یار کیا شرما رہی ہو تم ابھی میں نے بھی تو تم کو ننگا دیکھا تھا جب تم باتھ روم میں تھی ۔ وہ سین یاد آتے ہی اسکا چہرہ پھر سے سرخ ہونے لگا۔خیر میں نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈر وئیر ان میں دی اور اس سے کہا چلو زرینہ اتارو اسے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے میری انڈروئیر کو نیچے کیا جیسے ہی انڈروئیر نیچے ہوئی میرا لمبا موٹا پھنپھناتا ہوا لنڈ ایک جھٹکے سے باہر نکلا اور اوپر نیچے ہو کر زرینہ کو سلامی دینے لگا۔ مگر زرینہ ایک دم اچھل کر ایسے پیچھے ہوئی جیسے سانپ دیکھ لیا ہو۔باقی انڈروئیر میں نے خود اتاری پھر ساتھ ہی شرٹ بھی اتار کر میں کپڑوں سے آزاد ہو گیا۔ اب زرینہ کے اور قریب ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ میں نے کہا اسکو ہاتھ میں لو۔ تو وہ نہ مانی تو میں نے زبردستی اسکے ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیئے پہلے تو وہ ڈری مگر پھر کچھ سیکنڈ میں اس نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اسکے نازک ہاتھ کا لمس ملتے ہی میرا لنڈ مزید لمبا اور سخت ہونے لگا۔میرا لمبالنڈ اسکے ہاتھ میں پورا بھی نہیں آرہا تھا۔میں نے اس سے کہا چلو اس پر پیار کرو۔ وہ نہ مانی مگر بار بار کہتا رہا آخر اس نے ہمت کی اور میرے لنڈ کے ٹوپے پر ایک ہلکی سی کس کی۔ پھر میں نے اس سے کہا اسکو منہ میں لو اور لولی پوپ کی طرح چوسو۔ اس نے صاف منع کردیا تو میں نے کہا ابھی جو فلم میں سب دیکھا تھا نا ویسا کرنا ہے تم کو۔ خیر بڑی دیر تک منایا تو اس نے میرا لنڈ اپنے منہ میں لیا۔ اتنی دیر بحث کرنے میں لنڈ تھوڑا ڈھیلا ہوگیا تھا مگر جیسے ہی زرینہ کہ منہ کا گیلا پن اور گرمی اسکو ملی اس میں واپس سے کرنٹ دوڑ گیا اور وہ زرینہ کے منہ میں رہتے رہتے ہیں پورا تن کر کھڑ اہوگیا۔اب میرا لنڈ پورا تیار تھا اب زرینہ کی چوت کو تیار کرنا تھا جو ذرا مشکل کام تھا، میں نے زرینہ کا تعارف اپنے لنڈ سے سرسری طور پر تو کروا دیا تھا مگر اب اصل تعارف کی باری تھی۔میں نے زرینہ سے کہا اپنی شرٹ اتارو مجھے تمہارے سینے پر پپی کرنی ہے وہ بہت شرمائی اور منع کرتی رہی مگر میں نے اسکو بہت سمجھایا کہ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا میرے سوا اور نہ کسی کو پتہ لگے گا۔ تو آخر کار وہ مان گئی اور جیسے ہی اسکی شرٹ اتری اسکے 32 سائز کے ممے اچھل کر سامنے آئے۔ ایک دم ٹینس بال کی طرح گول اسکے نپلز گلابی اور نوکیلے تھے۔سو فیصد سیل آئٹم تھی وہ میری رانی۔اسکا بدن اتنا گورا تو نہیں مگر اسکی جلد میں بہت کشش تھی۔ایک دم نمکین۔ میں نے جلدی سے پہلا حملہ کیا اور اسکا ایک مما اپنے منہ میں لے کر بے تحاشہ چوسنا شروع کیا اسکے منہ سے آہیں نکلنے لگیں۔ جیسے ہی میں اسکے نپلز کو چوستا اسکا پورا بدن اکڑ جاتا تھا۔ میں کافی دیر اسکو اسی طرح مست کرتا رہا۔وہ بے حال ہو رہی تھی۔پھر اسکو ہوش نہ رہا اور میں نے خاموشی سے اپنا ایک ہاتھ اسکی شلوار میں داخل کردیا اسکی شلوار میں الاسٹک تھی۔میں سیدھا اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں گھسیڑتا ہوا اسکی چوت تک لے گیا اور اسپر اپنی ایک انگلی رکھ کر ہلکا سا دبایا تو ایک دم زرینہ کو جیسے ہوش آگیا۔مگر مجھ پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ اسکی چوت پوری طرح گیلی تھی۔اسنے خود کو کنٹرول کرنے کے لئے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو میرا ہاتھ اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ دبا لیا۔مگر اس سے کیا ہوتا میری انگلی تو اسکی چوت پر دستک دے رہی تھی۔ میں نے صرف انگلی سے ہی اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیا۔ وہ کسمساتی رہی مگر میں باز نہ آیا ، آج میں اسے جنگلیوں کی طرح چودنا چاہتا تھا سو میں اس پر ذرا بھی رحم کرنے کو تیار نہ تھا۔کافی دن کے بعد تو ایک کنواری لڑکی ہاتھ آئی تھی ورنہ تو آنٹیاں ہی کثرت سے ملا کرتی تھیں۔ خیر ذرا دیر بعد اس نے یہ معمولی سی مزاحمت بھی چھوڑ دی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں اور مموں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چوت کو سہلائے جانے کا بھی مزہ لے رہی تھی۔بخار کی وجہ سے اسکو تھوڑی کمزوری تو پہلے ہی تھی اسی لیے وہ جلدی مدہوش بھی ہوئی اور نشے سے چور۔اب میں نے ذرا دیر مزید اسکی چوت کو سہلایا اور پھر اس سے پوچھے بنا اسکی شلوار بھی اتار دی۔ اب ہم دونوں کپڑوں سے بالکل آزاد تھے۔میں نے چاٹ چاٹ کر اسکا جسم گیلا کردیا تھا اسکا بدن بہت چکنا تھا بس ملائی تھی وہ پوری۔میرا لنڈ جو ڈھیلا ہوچکا تھا وہ واپس سے پورا تن چکا تھا، اور زرینہ کی چوت میں انٹری مانگ رہا تھا۔میں زرینہ کو چومتے چومتے اس پوزیشن میں آگیا کہ میں زرینہ کے اوپر پورا لیٹ چکا تھا اور میرا لنڈ اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ تھا زرینہ کو نہیں معلوم تھا کہ میرا لنڈ اسکی چوت میں جائے گا اور وہ اس طرح حاملہ ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ سب اسے علم ہوتا تو وہ کب کی میرے گھر سے بھاگ چکی ہوتی۔وہ تو بس اپنے جسم کو سہلائے جانے سے جو مزہ مل رہا تھا اسکو انجوائے کر رہی تھی۔زرینہ کی چوت سے کافی پانی نکل چکا تھا اور وہ پوری گیلی تھی میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت پر ذرا دیر رگڑا اور اسکا ٹوپا پوری طرح زرینہ کی چوت کے پانی سے گیلا کیا۔پھر زرینہ سے کہا تھوڑی سی ٹانگیں کھولو۔اس نے فوراً میری بات مان لی بس اب مجھے جلدی اپنا لنڈ اسکی چوت میں ڈالنا تھا اگر اسکو ذرا بھی سنبھلنے کا موقع ملتا تو تکلیف کی وجہ سے وہ مجھے کبھی اپنی چوت میں داخل نہ ہونے دیتی۔میں نے بھی وقت ضائع نہ کیا اور لنڈ کو سیدھا کر کے اسکی چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا ٹوپا اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ زرینہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو وہ میری منتیں کرنے لگی کے میں اپنا لنڈ واپس نکال لوں میں اسکو تسلیاں دینے لگا اور اسی بحث میں ذرا دیر گذری تو زرینہ کا درد ختم ہو گیا میں نے اس سے پوچھا اب بھی درد ہے کیا اس نے کہا نہیں مگر اسکو باہر نکالو۔میں نے اسے پھر بہلایا بس ذرا دیر اندر رہنے دو پھر نکال لونگا۔ یہ کہہ کر میں اسکے ہونٹ چوسنے لگا۔ وہ بھی چوت کو بھول کر ہونٹ چوسنے میں ساتھ دینے لگی۔بس یہ موقع کافی تھا ویسے ہی لیٹے لیٹے میں نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور آدھے سے زیادہ لنڈ اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ایک بار پھر وہ درد سے بلبلانے لگی مگر اس بار اسکا منہ میں نے اپنے منہ سے بند کیا ہوا تھا۔وہ میری کمر پر اپنے ناخنوں سے بری طرح نوچنے لگی۔مگر میں اب کہاں اسکو چھوڑنے والا تھا۔کونسا ایسا لنڈ ہوگا جسکے سامنے گیلی چوت ہو اور وہ اس میں نہ جانا چاہے خاص طور پر وہ چوت جس میں کوئی لنڈ کبھی گیا ہی نہ ہو۔خیر تھوڑی دیر میری کمر نوچنے کے بعد وہ ٹھنڈی ہونے لگی اور نڈھال بھی۔اب اس نے خود کو میرے حوالے کردیا تھا۔میں نے اسکے ہونٹوں سے ہٹ کر اسکا چہرہ دیکھا وہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا مجھے ایک لمحے کو اس پر ترس تو آیا مگر اگلے لمحے اسکی نرم گرم گیلی چوت کا لمس اپنے لنڈ پر محسوس کرتے ہی میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔اب میں سیدھا ہو کر اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تو دیکھا میرا لنڈ اسکی چوت سے نکلنے والے خون سے سرخ ہو رہا تھا میں نے سوچا اگر ابھی صفائی کا سوچا تو اس رانی کا دماغ بدل جائے گا۔ سو بس تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا اور پھر آہستہ سے اندر کیا ایک بار پھر اسکی منہ سے سسکاری نکلی۔ مگر شاید اسکو تکلیف نہ تھی۔ تو اب فیصلہ کیا فوراً ہی پورا لنڈ اندر ڈالو اور بس شروع کرو چدائی۔ بس دو چار بار اسی طرح میں نے لنڈ اندر باہر کیا اور ایک بار بھرپور جھٹکا مارا تو میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں گھس گیا۔ وہ ایک بار پھر سے پھڑپھڑائی۔ مگر جلد ہی خود ہی سنبھل گئی۔اب میں نے لنڈ کو اندر ہی رکھ کر ذرا اور دبایا تو اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نہ دیکھ کر میں سمجھ گیا چوت تیار ہے زبردست چدائی کے لئے۔بس اب میں نے لنڈ کو پہلے آہستہ آہستہ اندر باہر کیا اور ذرا دیر بعد اپنی رفتار بڑھا دی۔اب میرے ہر جھٹکے پر اسکے منہ سے آہ تو نکلتی تھی مگر چہرے پر تکلیف کے آثار نہیں بلکہ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ذرا دیر بعد وہ مزے کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اور اپنا سر کبھی دائیں کبھی بائیں کرتی کبھی ہاتھ سے اپنے ممے دباتی کبھی ہونٹ دانتوں سے دباتی۔اچانک اسکے منہ سے تیز تیز آہیں نکلیں اور ایک دم اسکا جسم اکڑا اور جھٹکے لے کر کپکپانے لگا۔میں سمجھ گیا اسکی چوت اپنا پانی اگل رہی ہے۔ مجھے ابھی فارغ ہونے میں وقت تھا۔جیسے ہی اسکی چوت نے پانی اگلا میں نے جلدی سے لنڈ باہر نکالا وہ نڈھال ہو کر چاروں شانے چت بیڈ پر پڑی دعوت دے رہی تھی کے آئو اور چود ڈالو۔ میں جلدی سے اپنی الماری کی طرف بڑھااور وہاں سے ایک کونڈم نکال کر اپنے لنڈ پر چڑھایا اور دوبارہ سے پورا لنڈ اسکی چوت میں ڈال دیا۔ ایک بار پھر وہ ہی جھٹکوں کے سلسلے۔ ذرا دیر میں وہ دوبارہ چارج ہوئی اور پھر اسکی منہ سے آہیں نکلنے لگیں مگر اس بار وہ اپنی چوت کو اچھال کر میرا پورا پورا لنڈ وصول کر رہی تھی۔تھوڑی دیر اسی طرح چدائی کے بعد میرے لنڈ نے بھی لاوا اگلنا شروع کیا اور اسی وقت اسکی چوت نے بھی دوبارہ پانی چھوڑا۔ میں نے اپنی منی کا آخری قطرہ بھی کونڈم میں اسکی چوت کے اندر ہی نکال دیا۔
تھوڑی دیر اسی طرح نڈھال پڑے رہے ہم دونوں پھر پہلے میں اسکو لے کر باتھ گیا وہاں اسکو اچھی طرح دھویا اس سے اب ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔پھر میں نے باتھ لیا اور کپڑے تبدیل کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی رات ایک بار پھر میں نے اور زرینہ نے بھرپور چدائی کی مگر اس بار زرینہ ایک پوری پوری رنڈی کی طرح مجھے ملی اس رات کیا ہوا یہ جاننے کے لئے مجھے ای میل کیجے تاکہ اسکے آگے کی کہانی بیان کر سکوں

Wednesday 28 March 2012

my story

م!

میرا نام کومل ہے. میری عمر 27 سال ہے اور میں شادی شدہ ہوں. میرے شوہر آرمی میں ہیں. میں اپنے ساس - سسر کے ساتھ اپنے سسرال میں رہتی ہوں. شوہر آرمی میں ہیں تو اس وجہ سے میں کئی کئی ماہ لنڈ کو ترستي رہتی ہوں. ویسے تو میرے ارد گرد گلی محلے میں بہت سارے لنڈ رہتے ہیں پر ساس - سسر کے ہوتے یہ میرے کسی کام کے نہیں.
میری گلی کے سارے لڑکے مجھے پٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. میرے ممے لڑکوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں. میری بڑی سی گانڈ دیکھ کر لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کھڑے کھڑے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں. میرے ریشمی لمبے بالوں میں پتہ نہیں کتنے لڈو کے دل اٹكے پڑے ہیں. میری پتلی کمر، میرے گلابی گلابی ہونٹ، لڑکوں کو میرے گھر کے سامنے کھڑے رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں. سب مجھے پٹانے کے ہتھکنڈے اجماتے رہتے تھے پر میں کسی سے نہیں پٹ رہی تھی. کمپیوٹر پر ضرور چیٹنگ کرکے اپنی پیاس ہاتھ سے بجھا لیتی. چیٹنگ پر مجھے لڑکے اکثر اپنا موبائل نمبر دینے اور ملنے کو کہتے مگر میں سب کو منع کر دیتی. پھر بھی ایک - دو نے اپنا نمبر دے دیا تھا.
ان سب دوستوں میں ایک اےنار آئی بڈھا بھی تھا. وہ کچھ دن بعد پاکستان آنے والا تھا. اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے، مگر میں نے انکار کر دیا.
کچھ دن کے بعد اس نے پاکستان آنے کے بعد مجھے اپنا فون نمبر دیا اور اپنی تصویر بھی بھیجی اور کہا - میں اکیلا ہی آیا ہوں، باقی ساری فیملی امریکہ میں ہیں.
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مجھے دیکھنا چاہتا ہے بے شک دور سے ہی سہی.
اب تو مجھے بھی اس پر ترس سا آنے لگا تھا. وہ جہلم کا رہنے والا تھا اور میرا گاؤں بھی جہلم کے پاس ہی ہے.
اگلے مہینے میری ساس کی بہن کے لڑکے کی شادی آ رہی تھی جس کے لئے مجھے اور میری ساس نے شاپنگ کے لئے جہلم جانا تھا. مگر کچھ دنوں سے میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو اس نے مجھے اکیلے ہی جہلم چلی جانے کو کہا.
جب میں نے اکیلے جہلم جانے کی بات سنی تو ایک دم سے مجھے اس بوڑھے کا خیال آ گیا. میں نے سوچا کہ اسی بہانے اپنے بوڑھے عاشق کو بھی مل آتی ہوں.
میں نے نہاتے وقت اپنی جھاٹے صاف کر لی اور پوری سج - سںور کر بس میں بیٹھ گئی اور راستے میں ہی اس بوڑھے کو فون کر دیا. اسے میں نے ایک جوس - بار میں بیٹھنے کے لئے کہا اور کہا - میں ہی وہاں آ کر فون کروں گی.
میں آپ کو بوڑھے کے بارے میں بتا دوں. وہ 55-60 سال کا لگتا تھا. اس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے پر اس کی جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی اسمے اس کی باڈی اور اس کا چہرہ مجھے اس سے ملنے کو مجبور کر رہا تھا.
بس سے اترتے ہی میں رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئی جہاں پر وہ میرا انتظار کر رہا تھا. اس نے میری تصویر نہیں دیکھی تھی اس لئے میں تو اسے پہچان گئی پر وہ مجھے نہیں پہچان پایا. میں اس سے تھوڑی دور بیٹھ گئی.وہ ہر عورت کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کا دھیان بار بار میرے بڑے بڑے مممو اور اٹھی ہوئی گانڈ کی طرف آ رہا تھا. وہی کیا وہاں پر بیٹھے تمام مرد میری گانڈ اور مممو کو ہی دیکھ رہے تھے. میں آئی بھی تو سج - دھج کر تھی اپنے بوڑھے یار سے ملنے.
تھوڑی دیر کے بعد میں باہر آ گئی اور اسے فون کیا کہ باہر آ جائے. میں تھوڑی چھپ کر کھڑی ہو گئی اور وہ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.
میں نے اسے کہا - تم اپنی گاڑی میں بیٹھ جاؤ، میں آتی ہوں.
وہ اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا، میں نے بھی ادھر ادھر دیکھا اور اس کی طرف چل پڑی اور جھٹ سے جا کر اس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی.
مجھے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور کہا - تم ہی تو اندر گئی تھی، پھر مجھے بلایا کیوں نہیں؟
میں نے کہا - اندر بہت سارے لوگ تھے، اس لیے!
اس نے دھیرے دھیرے گاڑی چلانی شروع کر دی، اس نے مجھے پوچھا - اب تم کہاں جانا چاهوگي؟
میں نے کہا - کہیں نہیں، بس تم نے مجھے دیکھ لیا، اتنا ہی کافی ہے، اب مجھے شاپنگ کرکے واپس جانا ہے.
اس نے کہا - اگر تم برا نا مانو تو میں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا ہوں. کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چل سکتا ہو؟
اس کا جہلم میں ہی ایک شاندار بنگلہ تھا.
پہلے تو میں نے انکار کر دیا پر اس کے مزید زور ڈالنے پر میں مان گئی. پھر ہم اس کے گھر پہنچے. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ اگر میں اس کے گھر پہنچ گئی ہوں تو آج میں ضرور چدنے والی ہوں.
میں گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی.
اندر جا کر اس نے مجھے پوچھا - کیا پیوگی تم کومل؟
"کچھ نہیں! بس مجھے تھوڑا جلدی جانا ہے!"
وہ بولا - نہیں ایسے نہیں! اتنی جلدی نہیں .. ابھی تو ہم نے اچھے سے باتیں بھی نہیں کی!
"اب تو میں نے تمہیں اپنا فون نمبر دے دیا ہے، رات کو جب جی چاہے فون کر لینا .. میں اکیلی ہی سوتی ہوں."
"پلیز! تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی!"
میں نے کچھ نہیں کہا اؤر صوفے پر بیٹھ گئی.
وہ جلدی سے کولڈنگ لے آیا اور مجھے دیتے ہوئے بولا - یہ کولڈرنگ ہی پی لو پھر چلی جانا.
میں نے وہ مشروب لے لیا. وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.
باتوں ہی باتوں میں وہ میری تعریف کرنے لگا.
وہ بولا - کومل .. جب جوس بار میں تمہیں دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کاش کومل ایسی ہو، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ نرم یہی ہے.
رہنے دو! جھوٹی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی! میں نے کہا.
اس نے بھی موقع کے حساب سے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا - سچ میں نرم، تم بہت خوبصورت ہو.
میرا ہاتھ میری ران پر تھا اور اس پر اس کا ہاتھ!
وہ دھیرے دھیرے میرا ہاتھ رگڑ رہا تھا. کبھی کبھی اس کی انگلیاں میری ران کو بھی چھو جاتی جس سے میری پیاسی جوانی میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی.
اب میں مدہوش ہو رہی تھی. مگر پھر بھی اپنے اوپر قابو رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھا.
پھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیا اور اس کا ہاتھ میرے بازو سے ہوتا ہوا میرے بالوں میں گھس گیا، میں چپ چاپ بیٹھی مدہوش ہو رہی تھی اور میری سانسیں گرم ہو رہی تھی.
اس کا ایک ہاتھ میری پیٹھ پر میرے بالوں میں چل رہا تھا اور وہ میری تعریف کئے جا رہا تھا. پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے میری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیا.
میں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.
اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور میرے ہونٹوں کا رس چوسنا شروع کر دیا.
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میں اس کا ساتھ دینے لگی. پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا. اب میرے دونوں چوچے اس کی چھاتی سے دب رہے تھے. اس کا ہاتھ اب کبھی میری گانڈ پر، کبھی بالوں میں، کبھی گالوں میں، اور کبھی میرے مممو پر چل رہا تھا.
میں بھی اس کے ساتھ کس کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں میں گھما رہی تھی.
15-20 منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے - چاٹتے رہے.
پھر اس نے مجھے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا. اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیا اور پھر میری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا. وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا تھا. پھر وہ میرے اوپر لیٹ گیا اور پھر سے مجھے چومنے لگا. اسی دوران اس نے میرے بالوں میں سے ہیئر رنگ نکال دیا جس سے بال میرے چہرے پر بکھر گئے.
مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا، اب تو میں بھی شہوت کی آگ میں ڈوبے جا رہی تھی.
پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور میری قمیض کو اوپر اٹھایا اور اتار دیا. میری برا میں سے میرے ستن جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے. وہ برا کے اوپر سے ہی میرے ستن مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا.
پھر اس کا ہاتھ میری پجامي تک پہنچ گیا. جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیا. میری پجامي بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے میں اسے بہت مشکل ہوئی. مگر پجامي اتارتے ہی وہ میرے گول گول چوتٹ دیکھ کر خوش ہو گیا.
اب میں اس کے سامنے برا اور پینٹی میں تھی. اس نے میری ٹانگوں کو چوما اور پھر میری گانڈ تک پہنچ گیا.میں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ میرے چوتڑوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا.
اب تک میری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب غیر مرد کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا.
میں پیچھے مڑی اور گھوڑی بن کر اس کی پینٹ، جہاں پر لنڈ تھا، پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی. میں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی. جیسے جیسے میں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی.
میں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی. دھیرے دھیرے میں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی. وہ میرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا. مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا. میں مست ہوتی جا رہی تھی.
میرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے. میں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی. اس کا لنڈ انڈروئیر میں کسا ہوا تھا. ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا.
میں نے اس کی پینٹ اتار دی.
میں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر میں گھسا دی اور نیچے کو کھیںچا. اس سے اس کی جھانٹوں والی جگہ، جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی. میں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھیںچا. اس کا 7 انچ کا لنڈ میری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیا اور سیدھا میرے منہ کے سامنے ہلنے لگا.
اتنا بڑا لنڈ اچانک میرے منہ کے سامنے ایسے آیا کہ میں ایک بار تو ڈر گئی. اس کا بڑا سا اور لمبا سا لنڈ مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا اور وہ میری پیاس بھی تو بجھانے والا تھا.
میرے ہونٹ اس کی طرف بڑھنے لگے اور میں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیا. میرے ہوںٹھو پر گرم - گرم احساس ہوا جسے میں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی.
تبھی اس بوڑھے نے بھی میرے بالوں کو پکڑ لیا اور میرا سر اپنے لنڈ کی طرف دبانے لگا.
میں نے منہ کھولا اور اس کا لنڈ میرے منہ میں سمانے لگا. اس کا لنڈ میں مکمل اپنے منہ میں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو میں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور مسلنے لگی.
بڈھا بھی میرے سر کو اپنے لنڈ پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے منہ میں اپنا لنڈ گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا.
تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیا اور اس کا لنڈ میرے گلے تک اترنے لگا. میری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک میرے منہ میں جیسے سیلاب آ گیا ہو. میرے منہ میں ایک مزیدار چیز گھل گیا، تب مجھے سمجھ میں آیا کہ بڈھا جھڑ گیا ہے.
تبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لنڈ بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیا.
اس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ میرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا. کچھ تو میرے گلے سے اندر چلا گیا تھا اور بہت سارا میرے چھاتی تک بہہ کر آ گیا. میں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی. اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیا. اس درمیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہے.
تھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور میرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر میرے اوپر جھک گیا. پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیا اور میری برا کی ہک کھول دی. میرے دونوں کبوتر آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے. اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں کبوتر اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا.
وہ میرے مممو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا. میری تو جان نکلی جا رہی تھی. میرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور میری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیا. اس نے میری پیںٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیا اور دونوں ہاتھوں سے میری ٹاںگے فیلا کر کھول دی.
وہ میری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی. میرے بدن میں جیسے بجلی دوڑنے لگی. میں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ میں دبا لیا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا. اس کا لنڈ میرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا. مجھے پتہ چل گیا کہ اسکا لنڈ پھر سے تیار ہیں اور سخت ہو چکا ہے.
میں نے بوڑھے کی بانہہ پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا - میرے اوپر آ جاؤ راجہ ..
وہ بھی سمجھ گیا کہ اب میری پھددي لنڈ لینا چاہتی ہے.
وہ میرے اوپر آ گیا اور اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ دیا. میں نے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا لنڈ اپنی چوت کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھیںچا. اس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لنڈ میری چوت میں گھس گیا.
میرے منہ سے آہ نکل گئی. میری چوت میں میٹھا سا درد ہونے لگا. اپنے شوہر کے انتظار میں اس درد کے لئے میں بہت تڑپي تھی.
اس نے میرے ہوںٹھ اپنے ہوںٹھو میں لئے اور ایک اور دھکا مارا. اس کا سارا لنڈ میری چوت میں اتر چکا تھا.میرا درد بڑھ گیا تھا. میں نے اس کی گانڈ کو زور سے دبا لیا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے.
جب میرا درد کم ہو گیا تو میں اپنی گانڈ ہلانے لگی.
وہ بھی لنڈ کو دھیرے دھیرے سے اندر - باہر کرنے لگا.
کمرے میں میری اور اس کی سيتكارے اور اهو کی آواز گونج رہی تھی. وہ مجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور میں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا - اٹھا کر دے رہی تھی.
پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا.
میں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیا. اس نے میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالا. مجھے درد ہو رہا تھا مگر میں سہ گئی. درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے. میں تو پہلے ہی جھڑ چکی تھی، اب وہ بھی جھڑنے والا تھا. اس نے دھکے تیز کر دئے.
اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ بڈھا آج میری چوت پھاڑ دے گا. پھر ایک سیلاب آیا اور اسکا سارا مال میری چوت میں بہہ گیا.
وہ ویسے ہی میرے اوپر گر گیا. میں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر لیٹ گیا.
میری چوت میں سے اس کا مال نکل رہا تھا. پھر اس نے مجھے سیدھا کیا اور میری چوت چاٹ چاٹ کر صاف کر دی.
ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی. اس نے کسی ہوٹل میں فون کیا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیا.
میں نے اپنے چھاتی اور چوت کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی برا اور پینٹی پہننے لگی. اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور ایک گفٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا.
میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں بہت ہی پیارا، دلکش برا اور پینٹی تھی جو وہ میرے لئے امریکہ سے لایا تھا.پھر میں نے وہی برا اور پیںٹی پہنی اور اپنے کپڑے پہن لیے.
تبھی بیل بجی، وہ باہر گیا اور کھانا لے کر اندر آ گیا.
ہم نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.
اس نے مجھے کہا - چلو اب تمہیں شاپنگ کرواتا ہوں.
وہ مجھے مارکیٹ لے گیا. پہلے تو میں نے شادی کے لئے شاپنگ کی، جس کا بل بھی اسی بوڑھے نے دیا. اس نے مجھے بھی ایک بے حد خوبصورت اور قیمتی ساڑھی لے کر دی اور بولا - جب اگلی بار ملنے آؤگی تو یہی ساڑھی پہن کر آنا کیونکہ اس کو تیری تنگ پجامي اتارنے میں بہت مشکل ہوئی آج.
پھر وہ مجھے بس اسٹینڈ تک چھوڑ گیا اور میں بس میں بیٹھ کر واپس اپنے گاؤں اپنے گھر آ گئی.