Monday 9 July 2012

Its Amazing



  •  نام سعد ھے۔میں ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ھوں۔میرا کلر تیکھا گندمی ھے اور میری ھائٹ 5 فٹ اٹھ انچ ھے۔۔میری انکھیں گہری بران ھے اور مجھ میں سب سے زیادہ لبھانے والی بات میرا بھولا بھالا اور معصوم سا چہرہ ھے۔مجھے دیکھتے ہی ہر شخص متاثر ہوجاتا ھے۔ایک بات جو میں نے بہت پہلے نوٹ کرلی تھی کہ مجھے خوبصورت لڑکے اٹریکٹ کرتے ہیں اور انھیں دیکھتے ہی میرے دل میں عجیب سا احساس جاگ جاتا ھے۔پہلے تو میں اس بات کو نھیں سمجھ پایا لیکن اہستہ اہستہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں لڑکوں میں سیکس اٹریکشن محسوس ہوتی ہے اور حقیقت میں میں لڑکوں کو پیار کرنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں حد سے زیادہ شرمیلا تھااور کسی کے ساتھ سیکس کرنا تو دور کی بات اگر کسی کی طرف سے ایسا اشارہ بھی ملتا تو چاہنے کے باوجود میں اپنے سخت رویے سے ان کی حوصلہ شکنی کردیتا۔کسی کو ہمت ہی نہیں ہوئی کے مجھ سے اس حوالے سے کوئی بات کرپاتا،ایک طرف میں چاہتا تھا کہ کسی بھی لڑکے کو لپٹا کر اسے پیار کروں دوسری طرف مجھے اتنی شرم آتی تھی کہ کوئی شرارت سے مجھے انکھ بھی مارتا تھا تو میں گبھرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔میرے بہت سارے دوست ایسے تھے کہ جن کے ساتھ میرا دل سیکس کرنے کو تڑپٹا تھا مگر شرم کی وجہ سے میں صرف تصور میںہی ان سے دل بہلاسکتا تھا۔جب میں کالج میں آیا تو سب سے پہلے جو لڑکا مجھ سے ٹکرایا وہ راحیل تھا۔میرے اب تک کے دوستوں میں سب سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ۔اسے دیکھتے ہی جیسے میرا دل اچھل گیا۔اس کا قد میرے برابر تھا لیکن چہرہ پنکش وائٹ تھا۔وہ جب ہنستا تھاتو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے۔ہونٹ ترشے ہوئے سیب کی قاشوں جیسے اور دانت موتی کی طرح چمکتے ہوئے۔پہلی ہی نظر میں میں اس پر اپنا دل ہار گیا۔میں اس کے ساتھ ہی بیٹھتا تھا اور زیادہ تر وقت میں اسے کن انکھیوں سے اسے تکتا رہتا تھا۔اکثر میری نظریں اس کی پینٹ کی زپ والی جگہ کو ٹٹولتی رہتی تھی۔کئی بار مجھے اس کے ابھار کی انڈرلائن محسوس ہوئی جس کا احساس کرکے میرا بھی لمحوں میں کھڑاہوجاتا تھا۔اب میرے خوابوں میں صرف راحیل ہی تھا۔ کچھ دن بعد کالج میں چھٹیاں پڑگئیں۔تب تک میں اور راحیل بہت گہرے دوست بن چکے تھے۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی لیتا ہے اور بعض اوقات میری لاعلمی میں تکتکی باندھ کر مجھے دیکھتا ہے۔میں سوچتا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی ایسی بات کرے گا یا اشارہ بھی دیگا تہ میں ہمیشہ کی طرح بیوقوفی نہیں کرونگا اور اپنے دل کی بات کھل کر اس سے کہہ دونگا لیکن ایساہونہ سکا۔کالج بندہوگیا اورہم روز ملنے سے رہ گئے۔مجھے اس کی یاد ستاتی اور میں کالج کھلنے کی دعا کرنے لگا۔یونہی 15 دن گزرگئے۔وہ اتوار کا دن تھا جب امی نے اکر مجھ سے کہا کہ تمہارے کسی دوست کا فون ہے۔فون پر راحیل تھاہیپی برتھ ڈے ٹو یو راحیل کی آواز آئی اور میں حیران رہ گیا۔آج میری سالگرہ تھی اور یہ اسے یاد تھا۔میں نے اسے تھینکس کہا اور اسے بتایا کہ مجھے اس کی بہت یاد آرہی ہے۔تو ملنے کیوںنہیں آجاتے ?اس نے کہا آج سب گھر والے انکل کے یہاں جا رہے ہیں، اگر تم آتے ہو تو میں رک جاتا ہوں؛میری تو جیسے دلی مراد پوری ہوگئی۔میں نے فورا حامی بھر لی کہ میں 5 بجے تک اس کے گھر پہنچ جائونگا۔اس خیال سے کہ وہ شام کے وقت اپنے گھر اکیلا ہوگا میرے دل میں گدگدی ہونے لگی۔نہ جانے کیوں مجھے شدت سے یہ فیل ہونے لگا کہوہ بھی اکیلے میں مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔فون بھی اس نے اسی وجہ سے کیاہوگا۔میں نے پکی ٹھان لی کہ اگر اس نے زرا سا بھی اشارہ دیا تو میں شرمائے بغیر اسے فورا اسے اپنی باہوں میں بھر لونگا۔ اس کے گلابی نرم و نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوم لونگا۔اس کے گلابی گالوں کو جی بھر کے چومونگا۔ا ایسے ہی حالات کے ساتھ میں اس کے نارتھ ناظم آباد بلاک جے کے 240 گز والے شاندار مکان کے سامنے وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ایف بی ایریا سے اس کے گھر تک کوئی بس ڈائریکٹ نہیں جاتی تھی اس لیے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن میں راحیل کے خیالوں میں کھویا آرام سے وہاں پہنچ گیا۔بیل دبانے پر جس نے دروازہ کھولا اسے دیکھ کر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ کوء 26،27 سال کا انتہاء خوبصورت لڑکا تھا۔اس کی بڑی بڑی نیلی انکھیں تھی۔کلر ایسا جیسے کسی نے دودھ کی کڑاہی میں بہت ساری روح افزا کی بوتل انڈیل دی ہو۔ہونٹ لال سرخ ہورہے تھے۔اس کا قد 6 فٹ سے نکلتا ہوا تھا اور جسم کسرتی تھا۔چوڑا چکلا سینہ کمر تک آتے آتے وی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔اس نے بلیک کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ اور نیکر پہنی ہوئی تھی۔نیکر بہت ٹائٹ اور چھوٹی تھی جس میں سے اس کی بھری بھری رانیں پھوٹی پڑ رہی تھی۔ان گلابی رانوں کو دیکھتے ہی میرا میٹر شورٹ کر گیا تھا۔اس نے اوپر سے لیکر نیچے تک میرا جائزہ لیا۔اس کے ہونٹوں پر ایک دلاویز مسکراہٹ ابھری،جی فرمائیے ،اپ کس سے ملنا چاہتے ہیں? اس نے جلترنگ جیسی آواز میں پوچھا۔وہ جی وہ راحیل۔ ۔ ۔  میری پھنسی پھنسی آواز نکلی۔اس کی شخصیت کے آگے میرا دم نکل گیا تھا۔اچھا تم سعد ہو وہ مسکرایا آجائو، راحیل واش روم میںہے وہ آگے چلا میں اس کے پیچھے۔ پیچھے سے اس کی گاند کی بھری بھری گولائیاں بلکل چپکی ہوئی نیکر کی وجہ سے قیامت ڈھا رہی تھی۔چلتے چلتے وہ اچانک مڑا۔میں بری طرح بوکھلا گیا۔مجھے یوں لگا جیسے اسے پتہ چل چکا ہے کہ میں اس کے کولہوں کو گھور رہا تھا۔وہ پھر بغور مجھے دیکھنے لگا۔مسکرایا اور دوبارہ پلٹ کر چلنے لگا اورہم ڈرائنگ روم میں آگئے۔ٹھیک اسی وقت اندرونی دروازے سے راحیل بھی آیا اور گرمجوشی سی مجھ سے آکر لپٹ گیا۔پھر اس نے کہا سعد یہ میرے بڑے بھائی ثاقب ہیں واقعی اس کے نقوش راحیل سے بیحد ملتے تھے لیکن حقیقت میں ثاقب راحیل سے بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ثاقب شرارت سے مسکرایا۔اصل میں ان کے بھی ایک دوست آنے والے تھے اس لئے یہ رک گئے ہیں راحیل نے بتایا۔میں اور راحیل بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر چلاگیا۔میری عجیب سی کیفیت تھی۔بار بار مجھے ثاقب کی ننگی رانوں کا خیال ارہا تھا۔میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اندر سے بہت سارے لوازمات لیکر آگیا اور راحیل زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرتا رہا۔ثاقب بھی برابر والے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔میرے بدن میں پھر سرد سی لہریں دوڑنے لگیں میری نظریں کھاتے ہوئے پھر ثاقب کی رانیں ٹٹولنے لگیں۔اسی وقت گھنٹی بجی اور ثاقب اٹھ کر باہر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔اس میں اورثاقب میں کوئی چیز مشترکہ تھی تو وہ صرف قد کاٹھ تھا۔وہ کافی کالا تھا۔اور ثاقب کے ساتھ تو بلکل حبشی لگتا تھا۔مجھے وہ بلکل اچھا نہیں لگا۔ثاقب نے اس کا مجھ سے تعارف کروایا۔اس کا نام امجد تھا اور وہ بھی ثاقب کے ساتھ انجنئرنگ کالج میں تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔اب ثاقب بلکل میرے برابر اکر بیٹھ گیا۔اس کی ننگی گلابی ران میری ران سے ٹچ ہورہی تھی۔میں جھکی ھوئی نگاہوں سے اس کی نیکر کا ابھرا ہوا حصہ دیکھ رہا تھا۔نیکر کے اندر سے ہی محسوس ہورہا تھا کہ اس کا ٹول کتنا بڑا ہے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ ابھراہھوا حصہ نیکر پھاڑ کر نکل آئے گا۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ امجد مجھے دیکھ رہا ھے۔میں نے بوکھلا کر اپنی نظریں دوسری طرف گھمالی۔مجھے یوں لگا جیسے امجد مسکرا رہا ہے۔مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی۔میں نے اپنا دھیان باتوں کی طرف لگایا۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔اس کے جسم کا ہر زاوئیہ میرے اندر آگ لگا رہا تھا۔میں اپنے دل میں راحیل کے لئے کچھ خواب بسا کر ایا تھا اور میرے دل میں اس کا بھائی آبسا تھا۔5منٹ کے بعد امجد بھی اٹھ کر اندر چلا گیا۔راحیل مجھے اپنی کچھ پرانی تصویریں دکھانے لگا۔15 منٹ بعد ثاقب کوک لیکر آگیا۔امجد اس کے ساتھ تھا۔کوک پینے کے بعد میں اٹھ کھڑاہوا کہ اب میں چلونگا۔میں نے انھیں بتایا کہ بس کے لئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑے گا تو ثاقب ایک دم بولا کہ امجد حیدری جارہا ہے تمھیں بس تک چھوڑدے گا۔منع کرنے کے باوجود مجھے امجد کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا پڑا۔
  • بائیک پر امجد کے پیچھے بیٹھ کر مجھے احساس ہوا کہ امجد کا بدن کتنا چوڑاہے۔اس کی پیٹھ کے پیچھے سے مجھے کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا۔امجد مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔میں نے بتایا کہ ایف بی ایریا میں تو وہ بولا کہ اسے گھر سے کچھ لیکر گلشن جانا ہے تو میں اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے چھوڑ دیگا۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا۔چلتی ہوئی بائیک پر اس سے بات کرنے کے لئے مجھے اپنا اپ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے کان کے قریب جانا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے میرا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکرارہا تھا۔اسی دوران مجھے ایک مست کردینے والی خوشبو اس کی شرٹ سے اٹھتی فیل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرا بدن اس کے بدن سے ٹکرا کر ایک سنسنی سی میرے اندر دوڑارہا ہے۔کچھ ہی دیر میں ہم حیدری کے ایک اپارٹمنٹ میں داخل ہوگئے۔میرے منع کرنے کے باوجود اس نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے سیکنڈ فلور کے ایک فلیٹ کا چابی سے دروازہ کھول کر اندر لے گیا۔وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور مجھ سے کہا کہ صرف دو منٹ میں ہم چلتے ہیں۔فرج کی طرف جاتے جاتے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے یہاں اکیلا رہتاہے اور ثاقب جس کمپنی میں چیف انجنئر ہے وہیں ثاقب نے اسے ایک مناسب جاب دلوائی ہوئی ہے۔وہ دو گلاس اور کوک لے آیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں کوک پینے لگا۔اس دوران اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انجنئرنگ پوری نہ کر سکا اور یہ ثاقب کا احسان تھا کے بعد میں اس نے اپنی کمپنی میں ایک اچھی جاب دلوادی۔وہ اپنے بارے میں بتارہا تھا اور میں کوک پیتے ہوئے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اتنا کالا نہیں تھا جتنا وہ مجھے ثاقب کے ساتھ کھڑا ہوا لگا تھا۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اورہونٹ قدرے بھاری تھے۔گہری آنکھیں تھیں۔وہ بلکل میرے قریب بیٹھا ہوا تھا۔مجھے پھر اس کے اندر سے خوشبو فیل ہوئی۔مجھے پھر نیکر میں ملبوس ثاقب یاد آنے لگا اور میرے دل میں اس کے خیال سے خماری چھانے لگی۔میں تصور میں ثاقب کی نیکر اتار کر اس کے ٹول کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔اچانک امجد نے میری ران پر ہاتھ مارا۔میں بوکھلا گیا
  • کہاں کھوگئے اس نے پوچھا اور میں نے گڑبڑا کر بتایا کہ میں اس کی بات سن رہا ہوں۔اچانک اس نے مجھ سے پوچھاکیا ثاقب تمھیں اچھا لگتا ھے میں ششدر رہ گیا۔سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دوں۔جب اس نے میری ران پر ہاتھ مارا تھا تو دوبارہ نہیں ہٹایا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں ثاقب اچھا لگتا ہے۔ویسے وہ واقعی چیز ہے۔امجد کہے جارہا تھا اور مجھے چپکی لگ گئی تھی ۔میرا خیال ہے کہ تم بھی اسے اچھے لگے ہو میں نظریں جھکائے سن رہا تھا۔مجھ میں کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی۔میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور میرا پورا وجود کسی آگ میں جلنے لگا تھا۔ایسی اگ جس میں مزاہ تھا۔کیا تم ثاقب سے اکیلے میں ملنا چاہوگے? اب میں نے حیران ہو کر اپنی نظریں اٹھائی۔عین اسی وقت اس نے اپنے ہاتھ سے میری ران کو دبایا جس سے اس کے سوال کا اصل مقصد اور بھی واضح ہوگیا۔ ہاں وہ تمہیں پسند کرتا ہے اور تم بھی اسے پسند کرتے ہو، لیکن اسے ڈرہے کہ تم اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ہو کہیں اسے بتانہ دو،میرے پاس اس کے کسی بات کا جواب نہ تھا۔لیکن یہ خیال کہ ثاقب مجھے پسند کرتا ہے میرے وجود کو شرشار کر گیا۔لیکن ابھی بھی میں امجد سے کچھ نہ کہہ سکا۔ایک بات بتا کبھی تم نے پہلے کسی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ امجد نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑدیا اور میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔اسی وقت اس نے میری ران پر اپنا دبا اور بڑھادیا۔ میں تم کو ثاقب سے اکیلے میں ملواسکتا ہوں۔کیا تم اس سے ملنا چاہوگے?میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں سختی سے منع کردوں مگر میرا دل مجھے روک رہا تھا۔میرے بدن میں سوئیاں سی دوڑ رہی تھی۔کیا ۔ ۔ کک کیا یہ ممکن  میرے منھ سے بس اتنا ہی نکلا۔ہاں ۔تمہاری خواہش پوری ہوسکتی ہے لیکن تمہیں اس گبھراہٹ کو اپنے اندر سے نکالنا ہوگا،کک۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔  میرے منہ سے نکلا اور وہ شرارت سے مسکرایا۔اس وقت وہ میرے دل کی بات کررہا تھا اور مجھے دنیا میں اپنے سب سے قریب محسوس ہورہا تھابتادوں کیسے اس نے میری انکھوں میں اپنی انکھیں ڈال دیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ایک دم جھکا اور میرے گالوں کو چوم لیا۔اس کا میری ران پر رکھا ہواہاتھ کھسکتا ہوا میرے پیٹ پر آگیا۔یہ زندگی میں پہلی بار میرے ساتھ ہوا تھا۔میں ہکا بکا امجد کو دیکھتا رہ گیا۔تمہیں برا تو نہیں لگا اس نے تشویش سے پوچھا اور مین حسب عادت چپ رہا۔وہ سمجھ گیا کہ مجھے برا نہیں لگا۔اس کا ہاتھ جو اب بھی میرے پیٹ پر تھا تھوڑا سا نیچے آیا اور میری پینٹ کی زپ والی جگہ پر آکے ٹھہر گیا۔ایک لمحے بعد وہ دوبارا جھکا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور میری زپ والی جگہ پر اس کے ہاتھ کا دبا ایک دم بڑھ گیا۔میرا پورا بدن آہستہ آہستہ کپکپانے لگا۔اس بار اس نے بغیر رکے میرے ہونٹوں کی کسنگ جاری رکھی۔میری آنکھیں خودبخود بندہوگئیں۔اس نے دانتوں سے میرے ہونٹ کاٹنا شروع کردئے۔میں نے اپنے ہونٹ دبائے ہوئے تھے۔پھر اس نے میرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی۔اس کی زبان کی گیلاہٹ میں نے اپنے ہونٹوں پر فیل کی اور پھر اس کی زبان کا دبا میرے دبے ہوئے ھونٹوں پر پڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دونوں ہونٹ کھل گئے اور اس کی گرم زبان میرے منہ میں دوڑ گئی۔میرا پورا وجود طوفانوں کی لپیٹ میں تھا۔بند آنکھوں سے میرے تصور میں ثاقب در آیا۔مجھے لگا جیسے ثاقب کے سرخ ہونٹ میری زبان کو چوس رہے ہیں اور اس کی رسیلی زبان میرے منہ میں دوڑ رہی ہے۔لذت اور انبساط سے میری روح تک شرشارہوگئی۔وہ دیوانوں کی طرح میرے ہونٹ اور زبان چوس رہا تھا۔ساتھ ہی اس کے گرم ہاتھ میری پیٹھ پر دوڑ رہے تھے۔میں نے اس کے تھوک کو امرت سمجھ کر اپنے حلق سے نیچے اتارا اور پھر اس کا حسین گلابی چہرہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھولدیں اور اپنے سامنے امجد کا چہرہ دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی اور میں نے غیر اردی طور پر اپنا سر پیچھے ہٹایا۔کیا ہوا اس نے بڑے پیار سے مسکرا کر پوچھاکک۔ ۔ کچھ نہیں میں اتنا ہی کہہ پایا۔اس نے میری کمر پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ثاقب کی جگہ امجد کو دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی تھی۔کیا ثاقب میرے ساتھ واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ کرنا ۔ ۔ مطلب مجھے پسند کرتا ہے  میرے اس اچانک سوال سے سے اس کی مجھ پر نہ صرف گرفت کمزورہوگئی بلکہ اس کے چہرے سے لمحہ بھر کے لئے مسکراہٹ بھی غائب ہوگئی لیکن دوسرے لمحے میں وہ مسکرایا۔یقینا اسے ثاقب کے لئے میری بے چینی بری لگی تھی۔تم بھول رہے ہو میرے ساتھ تمہیں زبردستی بائیک پر اسی نے بٹھایا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ میں تمہیں کسی طرح کریدوں کہ تم اسے چاہتے ہو کہ نہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی گڑبڑہو کہ جس سے راحیل یا گھر کے کسی اور فرد کو پتہ چل جائے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ دنوں میں حالات سازگار کرکے تمہیں اس سے ملوادونگا یہ کہہ کر وہ دوبارا جھکا اور میرے منہ میں اپنی زبان گھسیڑ دی۔میں امجد کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔وہی تھا جو مجھ جیسے ڈرپوک لڑکے کو ثاقب سے ملواسکتا تھا اور دوسری بات یہ کہ میرا اپنا گرم وجود اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے اندر سمالے۔اس نے مجھے دونوںہاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیا اور دیوانہ وار میرے منہ میں اپنی زبان دوڑانے لگا۔میری سانسیں اتھل پتھل ہورہی تھیں اور زندگی کا وہ لطف جس کا میں صرف خواب دیکھا کرتا تھا کہ کسی کے سینے سے لگ کر اپنے جنم جنم کی پیاس بجھالوں وہ آج میں نے پالیا تھا۔کتنی عجیب بات تھی کہ آج میں گھر سے راحیل کے ساتھ کچھ کرنے کی خواہش لیکر نکلا تھا اور اس کے گھر پہنچنے کی بعد میرے خوابوں میں مجھ سے دس سال بڑا اس کا بھائی آبسا تھا لیکن میرا وہ خواب ایک تیسرے ہی فرد کے ساتھ پوراہوا تھا جو پہلی نظر میں مجھے بہت برا لگا تھا۔ امجد مجھے سینے سے بھینچے میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور پھر اس نے اپنی زبان سے میرے گال چاٹنا شروع کردیئے۔وہ پاگلوں کی طرح میرے پورے منہ کو چوس رہا تھا۔کبھی گال تو کبھی انکھیں اور کبھی میری گردن۔یونہی چومتے چوستے وہ میرے کان تک آیا اور اپنے دانتوں سے کان کا سرا آہستہ آہستہ کترنے لگا۔شدت لزت سے میری آہ نکل گئی۔کانوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے وہ بڑی مدھ بھری آواز میں بولا سعد یو آر گریٹ! تم بہت کیوٹ اور بھولے ہو۔میرا دل کررہا ہے کہ میں تمہیں اپنے اندر کہیں چھپالوں ۔تمہارے اندر ایک نشہ ہے یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے سینے سے لگائے ہوئے اٹھالیا اور مسلسل کسنگ کرتے ہوئے مجھے بیڈروم میں لے آیا اور بڑے پیار سے مجھے بستر پر لٹادیا۔پھر وہ خود میرے اوپر چھاگیا۔اس کے چوڑے چکلے وجود کے آگے میری مثال کبوتر جیسی تھی لیکن پورا مجھ پر آجانے کے باوجود اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ میں اس کے نیچے آکر پس نہ جائوں ۔جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے اپنی شرم طیاق کر اپنے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے گرد گھمائے اور اس کے منہ کو اپنی طرف کھینچ کر اس کے ہونٹوں پر کس کی۔امجد ششدر ہوکے مجھے دیکھنے لگا۔شاید اسے میری طرف سے کسی پیش قدمی کی امید نہ تھی۔دوسرے لمحے میں میری اس ادا پر فدا ہوکے اس نے دوبارا مجھے چومنا شروع کردیا۔میں آنکھیں بند کرکے جیسے ہوائوں میں اڑرہا تھا۔میرا پورا وجود لرز رہا تھا ۔میرا لنڈ میری پینٹ میں اتنا کھڑا ہوگیا تھا کہ پھنس رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے امجد نے میری شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے۔میرا نازک سا جسم اب اس کے سامنے کھلا تھا۔اس سے پہلے کے میں سوچتا کہ وہ اب کیا کرے گا اس نے اپنی زبان میرے ایک نپل پر رکھی اور اسے باقاعدہ چوسنے لگا۔اف۔ ۔ میری تو کراہ نکل گئی ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے چوسنے سے میرے بدن میں اس طرح کرنٹ دوڑ جائے گا۔میرے منہ سے مسلسل آہیں نکل رہی تھیں اور وہ ایک کے بعد ایک نپل چوسے جارہا تھا۔ اتنا مزاہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اور اس وقت تو غضب ہی ہوگیا جب چوستے چوستے وہ میرے پیٹ سے ہوتا ہوا میری ناف تک آیا۔مجھے ایسا لگا جیسے ایک اگ سینے سے رینگتی ہوئی میرے ناف تک آگئی ہو۔اور پھر امجد نے اپنی دہکتی زبان میری ناف میں گھسیڑدی۔میں جیسے اچھل پڑا۔ایک آہ سی میرے منہ سی نکلی اور میں نے شدت جذبات سے امجد کے سر کے بال پکڑلئے۔امجد ان باتوں سے بے پرواہ میری ناف کے گرد اپنی زبان گھما رہا تھا اور میں مسلسل سسکاریان بھر رہا تھا۔میں ساتویں آسمان پر اڑرہا تھا اور امجد میرے پیٹ کا ایک ایک حصہ چوم رہا تھا اور چوس رہا تھا۔اس کا ایک ہاتھ میری پینٹ کے ابھرے ہوئے حصے پر تھا جس کے دبا ئوسے میرا لنڈ اکڑنے لگا تھا۔پھر اس کے دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی میری پینٹ کے اوپر سے اندر سرائیت کر گئی۔مانو میری تو جیسے سانس رک گئی۔اس کی انگلی شاید میری انڈروئیر سے ٹکرائی اور اس نے تھوڑی سی اسے باہر کھینچ لی۔میں نے سرخ رنگ کی انڈروئیر پہنی ہوئی تھی جس کا تھوڑا سا سرا باہر آگیا تھا۔وہ میری انڈروئیر دیکھ کے مسکرایا۔لال کلر سیکس کا کلر ہوتا ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم عرصے سے اپنی خواہش دبائے بیٹھے ہو اپنا من مار کر شرم اور بدنامی کے خوف سے صرف تصورات میں جی بہلارہے تھے۔اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اج تم زندگی میں پہلی بار ایسا کر رہے ہو۔آج تم بے خوف ہوکر اپنے دل کی بھراس نکال سکتے ہو۔یقین کرو میں دل سے تمہارے ساتھ ہوں۔آج صرف اور صرف تمہارا دن ہے اس کے بعد وہ دوبارا جھکا اور میرے ہونٹ بڑی نرمی سے چوم لئے۔اس کا انداز میرے ساتھ بہت ہی والہانہ تھا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو مجھے نوچ کھسوٹ سکتا تھا میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔لیکن وہ مجھے تکلیف پہنچائے بغیر مجھے مزاہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔کسنگ کرتے کرتے اس کا ہاتھ پھسلتا ہوا میری پینٹ کے بیلٹ تک پہنچا اور اس نے میرا بیلٹ کھول دیا۔اس کی زبان دوباہ  میرے منہ میں دوڑ گئی اور اسی کے ساتھ اس نے پینٹ کا بٹن کھول کے میری زپ نیچے کردی۔زپ کی آواز کے ساتھ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔اتنا ٹینس میں زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا ۔عین اسی وقت اس نے دانتوں سے میری زبان پکڑلی اور اسے چوسنے لگا۔ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ پینٹ کے اندر کھسک گیا۔انڈروئیر پر ہونے کے باوجود اس کے ہاتھوں کی ہیٹ میں نے اپنے فل ٹینشن میں آئے ہوئے لندڈ پر محسوس کی۔میں ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔میری سانسیں اتھل پتھل ہوچکی تھیں ۔اس نے انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند پکڑ لیا۔میری ایک طویل آہ نکل گئی۔اس نے بیتاب ہو کر میری زبان چوسنے کی رفتار بڑھادی۔ پھر وہ میرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ہوا میری گردن تک آیا اور پھر وہاں سے پھسلتا ہوا میری نپل تک ایا اور چند لمحے اسے چوسنے کے بعد سینے سے ہوتا ہوا پیٹ پر آیا ۔اس کی زبان کی گرمی اور گیلاہٹ سے میرا تن بدن جل رہا تھا۔ناف پر پہنچ کے اس نے ناف کے اندر تک زبان گھسیڑدی۔ساتھ ساتھ وہ خود بھی پھسلتا ھوا نیچے ہوگیا تھا۔اس کے دونوں ہاتھ میری پینٹ پر تھے۔ناف چوستے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں کے زور سے میری رانوں کو اوپر اٹھایا اور زبان ناف سے نیچے لے جاتے ہوئے میری پینٹ نیچے کردی اور اپنا منہ میری سرخ انڈروئیر کے اوپر رکھ کے میرے ابھرے ہوئے حصے کو اپنے دانتوں میں دبالیا۔یہ کام اس نے اتنی تیزی اور مہارت سے کیا کہ سرور اور کیف کی کیفیت میں میری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔میں زلزلوں کی لپیٹ میں تھا اور وہ میرا لند انڈروئیر کے اوپر سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔میری سسکیاں لزت و انبساط سے آہوں میں اور پھر کراہوں میں بدل گئی تھیں۔سرور کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امجد بھی رکا نہیں تھا۔گہری گہری سانسوں کے ساتھ اس کا بھی کام جاری تھا۔اب وہ انڈروئیر کے اوپر سے ہی میرا لند چوس رہا تھا۔اس کے والہانہ انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بھی بیحد مزاہ ارہا ہے۔اس کے تھوک سے میراے انڈروئیر کا وہ پورا حصہ گیلا ہوچکا تھا اور میرے لند کی پوری اٹ لائین لند کے وائٹش کلر کے ساتھ صاف نظر آنے لگی۔اس نے چمکتی انکھوں سے لمحہ بھر رک کر میرے ابھرے ہوئے لنڈ کا جائزہ لیا اور پھربے خود ہوکر دوبارہ انڈروئیر کے اوپر سے میرے لنڈ کو منہ میں لیکر چوسنے لگا۔مستی میں آکر میں نے اس کے ڈولتے ہوئے سر پرہاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیا۔دیر تک وہ انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند چوستا رہا۔میرے انڈرویئیر کا اوپری حصہ پورا گیلا ہوگیا تھا۔ساتھ ساتھ وہ میری انڈروئیر سے نکلتی ہوئی چکنی اور گوری رانوں پر بھی اپنی زبان پھیرتا رہا۔اس کی زبان کی حدت سے میرا پورا وجود پھنک رہا تھا۔اس کی بے خودی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چومتا تھا کبھی چوستا تھا کبھی کاٹتا تھا۔میرا لنڈتن کر پوری طرح میری انڈروئیر میں کھڑاہوچکا تھا۔اایک وقت آیا کہ میرے لئے یہ ناقابل برداشت ہوگیا۔میں ایک جھٹکے سے پلنگ پر بیٹھا اور بالوں ہی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کے سلگتے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور باقاعدہ سسکاریاں لیتے ہوئے اس کے ہونٹ بیدردی سے کاٹنے لگا۔اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے میرے لئے اپنے اپ کو ڈھیلا چھڑدیا۔اب میری زبان اس کے سیاھی مائل منہ کو چوم رہی تھی۔اس کے ہونٹ چوس رہی تھی۔اس کے منہ میں گھوم رہی تھی۔اس وقت مجھے اپنے جسم کی بھوک یاد تھی صرف۔نہ مجھے راحیل یاد تھا اور نہ ثاقب۔نہ مجھے یہ یاد تھا کہ جس کے ہونٹوں کو میں چاٹ رہا ہوں پہلی نظر میں وہ مجھے سخت برا لگا تھا۔میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے گال چاٹنے لگا۔پھر چاٹتے چاٹتے اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔میں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ کا بٹن کھولنا شروع کردیا ۔اس نے مسکرا کر نیچے سائیڈ سے اپنے بٹن کھول دیئے۔اب اس کا چوڑا چکلا سینہ میرے سامنے تھا۔اس کے سینے پر معمولی بال تھے۔نپل بڑے اور ابھرے ھوئے تھے اور پیٹ تو جیسے تھا ہی نہیں۔بلاشبہ اس کا جسم کافی سیکسی تھا۔ میں نے اس کی بڑی سی کمر پر اپنا ہاتھ رکھا اور جھک کر اس کے نپل کو اپنے منہ میں لے لیا۔ اس نے ایک طویل سسکاری بھری۔اس کا بدن جھرجھرایا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنوں کہ ساتھ سیکس کرچکا ہے لیکن مجھے یہ اندازا ضرورہو گیا تھا کہ میرے ساتھ اسے بہت مزاہ آرہا ہے اور میری طرح وہ وجد کی کیفیت میں ہے حالانکہ میرا تو یہ پہلا تجربہ تھا۔اسی کی طرح نپل چوستے چوستے میں زبان پھیرتا ہوا نیچے ہوتا چلاگیا اور اس کی سسکاریوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور جب میں ناف تک پہنچا تو وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔جب میں نے اس کی ناف پر اپنی ننگی زبان پھیری تو وہ تڑپ اٹھا۔میں اس کے اندر دبے ہوئے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا رہا اور وہ آنکھیں بند کئے مزے لیتا رہا۔اس کے بعد جب مجھ میں مزید برداشت نہ رہی تو میں نے اس کی پینٹ کی بیلٹ پر اپنا ہاتھ مارا۔آنے والے لمحات کے تصور سے اس کا پورا جسم کانپ کر رہ گیا۔خود میری سانسیں اکھڑ گیئں تھیں۔ اور پھر جب میں نے بیلٹ کھول کر اس کی پینٹ نیچے کی تو وائیٹ اندڑویئر میں اس کا وہ حصہ میرے سامنے تھا جس کو دیکھنے کے تصور سے مجھے کپکپی طاری ہوگئی تھی۔انڈروئیر کے پیچھے چھپے مال کو دیکھ کر میری آنکھیں پھیل گئیں ۔اس کے لنڈ کی اٹ لائین اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف لاحق ہوگیا لیکن سیکس کے بڑھتے ہوئے ٹینشن نے مجھے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیااور میں نے بے صبری سے اس کی انڈروئیر کے ابھرے ہوئے حصے پر اپنے ہونٹ رکھ دئے۔وہ بری طرح تڑپا۔میں نے اس کی گاند پر دونوں ہاتھ رکھ کے اپنا پورا منہ اس کی جانگھوں میں گھسا دیا۔اس کے ابھرے ہوئے بڑے سے لنڈ کو میں نے انڈروئیر کے اوپر سے اپنے منہ میں لیا اور آہستہ سے اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔میں وہی کررہا تھا جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہ اس کا حق تھا۔زندگی میں پہلی بار اس نے مجھے اس لذت سے روشناس کروایا تھا جس کی تمنا میں میں عرصے سے مراجا رہا تھا۔میں نے اس کی کالی رانوں پراپنی زبان پھیری۔اس کی رانیں بالوں سے صاف تھیں ۔رانوں سے کافی نیچے جا کر اس کی ٹانگوں پر بال تھے۔اس کی جلتی ہوئی رانوں پر زبان پھیرنے سے مجھے بڑا مزاہ ارہا تھا۔ اس کی پھنسی ہوئی انڈروئیر سے نکلتی رانیں میرے لئے وجد اور ہوگئی تھیں۔میں نے ان کی اسی طرف سے انڈرویئر کو اور اوپر اٹھایا یہاں تک کہ اس کے ٹٹے کا ایک حصہ نظر انے لگا اور وہیں اپنی زبان گھسیڑدی،اف ۔ ۔ اہ۔ ۔ میں گیا۔ وہ تڑپ اٹھا۔میں نے مزید انڈرویئر کو اٹھایا اور ساتھ ساتھ میری زبان نے اندر کی طرف پیش قدمی جاری رکھی او سعد ۔۔ ۔ آئی لو یو مائی بوائے۔ ۔ اٹس امیزنگ ۔ ۔ او گوڈ۔۔ وہ مسلسل سسکاریاں بھرتے ہوئے کچھ نہ کچھ کہتا تھا اور میں مسلسل اس کی ران کی طرف سے اپنی زبان اس کی انڈروئیر کے اندر تک لیتا چلاگیا۔میری زبان ران کے اخری حصے پر کونے سے ٹکرارہی تھی اور اس کے ایک ٹٹے کا کچھ حصہ بھی میری زبان کی زد میں آرہا تھا۔میں اپنی زبان دبا دبا کر اس کی ران کے اخری کونے پر پھیرتا رہا اور وہ سسک سسک کر میری حوصلہ افضائی کرتا رہا۔اس کے ابھار کا سائز بڑھتا رہا اور وہ وقت آیا جب اس کے لندڈکا اینگل پھسل کر کچھ کم ہوا تو مجھے وہ ہپناٹائز کردینے والا منظر نظر آیا۔اس کے بڑے سے لند کا ٹوپا انڈروئیر سے باہر چھلک آیا تھا۔میں سب کچھ بھول کر مسحورہوکے انڈروئیر سے باہر نکل آنے والے اس کے کالے لیکن چکنے لند کے بڑے سے ٹوپے کو دیکھنے لگا۔میرے لئے یہ ایک جادوئی منظر تھا۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی اور کے لند کو نہیں دیکھا تھا۔پھر جیسے میں سلوموشن میں بلکل ہپناٹائز ہوکے انڈروئیر کے اوپر سے اس کے لنڈ کو اپنے منہ سے رگڑتا ہوا اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا اور اس کے جلتے ہوئے لند کے نظر آنے والے حصے پر اپنی زبان پھیری اور دوسرے لمحے میں پورا ٹوپا اپنے منہ میں لے لیا۔اس کا پورا لنڈ لذت کی شدت سے تھرا گیا اور انڈروئیر تھوڑا اور نیچے ہوگیا ۔وہ لنڈ آہستہ آہستہ مجھے تڑپا تڑپا کر سامنے آرہا تھا اور میں صبر کئے بغیر اسے اور اپنے منھ میں لیتا جارہا تھا ۔اس کے منہ سے لایعنی آوازوں کا سلسلہ جاری تھا جو مجھے یہ احساس دلا رہا تھا کہ اسے کتنا مزہ آرہا ہے اور میں بھی بغیر رکے اس کے لنڈکے اوپری حصے کو چوسے جارہا تھا۔اس کے لند کی موٹائی سے میرا منہ تھک سا گیا اور میں نے اپنی زبان اور منہ کے تلے اس کے لنڈ کو پوری قوت سے دبا کر اپنے منہ کو باہر کھینچا۔وہ شدت لذت سے چیخ پڑا۔میرے بھی صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور میں نے دونوں طرف سے پکڑ کر اس کی انڈروئیر نیچے کھینچ لی۔اس کا اکڑاہوا لنڈ کسی راڈ کی طرح میرے گال سے ٹکرایا اور میں لند کا سائز دیکھ کر بوکھلا گیا۔اس کا لند آٹھ انچ سے بھی بڑا اور دو انچ سے زیادہ موٹا تھا۔میں یک تک لنڈدیکھے جارہا تھا۔
  • اس کو دیکھ کر میری آنکھوں میں تشویش کی پرچھائی لہرائی جو مجھے ایسا لگا کہ اس نے بھانپ لی ثاقب کو میرا لنڈ بہت پسند ہے۔وہ کئی کئی منٹوں تک اسے چوستا رہتا ہے  مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیا ہے لیکن اس کا یہ جملہ سن کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔نہ جانے کیوںمجھے یہ سن کر بلکل اچھا نہیں لگا کہ ثاقب اس کا لنڈچوستا ہے۔چشم تصور سے میں نے دیکھا کہ ثاقب کہ خوبصورت منہ میں امجد کا کالا لنڈہے۔اور وہ اسے مزے لی لیکر چوس رہاہے۔اس کے گلابی امجد کے لند کو چوم رہے ہیں اور اس کی ہموار زبان امجد کے پورے لنڈ کو چاٹ رہی ہے۔کبھی وہ اپنے منہ میں میں امجد کے کالے ٹٹے لیکر چوس رہا ہے۔میرے لیئے یہ تصور روح فرسا تھا کہ جس سے مجھے پہلی نظر میں محبت ہوگئی تھی وہ کسی اور کا اور وہ بھی اتنا کالا لنڈاپنے منہ میں لیتا ۔میرے نزدیک یہ ثاقب کے منہ کی توہین تھی۔پھر مجھے خیال آیا کہ میں بھی تو ہوس کے ہاتھوں مجبورہوکر امجد کا کالا لنڈ چوس رہا تھا۔میں نے ایک گہری سانس لی اور امجد کا بڑا سا لند اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ۔اس کے باوجود اس کے لنڈکا ٹوپا پوراہاتھوں کی گرفت سے باہر تھا اور ایک اور تصور اپنے دماغ میں لایا کہ اس لنڈ پر ثاقب کے خوبصورت ہونٹوں کا لمس ہے۔اسے اس کے سرخ لبوں نے چوسا ہے۔ایک بار پھر اس خیال نے مجھے بے حال کردیا اور میں نے بی تاب ہوکر اس کے لند کا ٹوپا اپنے منہ میں لے لیا اور جہاں تک میرے ہاتھ تھے وہاں تک میں نے امجد کا لنڈ منہ میں لیکر چوسا اور اس کے لنڈ کی نوک پر گیلی زبان پھیری۔اپنے تیئں میں امجد کا لند نہیں چوس رہا تھا بلکہ ثاقب کے لبوں کو چوس اس تھوک کی مہک فیل کررہا تھا جو امجد کے لنڈ کو چوستے ہوئے ثاقب کے منہ سے نکل کر امجد کے لنڈ کو گیلا کر گئی تھی۔میں نے اپنا ایک ہاتھ ہٹادیا اور امجد کے لنڈ کو اپنے منہ میں اور اندر تک لے گیا اور پوری دلجمعی سے اسے چوسنے لگا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا آدھا لنڈبھی پوری طرح میرے منہ میں نہیں آسکا تھا۔امجد کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ھوگیا اور اس نے مجھے اٹھایا اور میرے گیلے ہوتے ہوئے منہ میں پھر اپنی زبان گھسیڑدی اور بیتابانہ اسے چوسنے لگا۔اس کے ہاتھ پھسلتا ہوا میرے کمر تک آیا اور پھر اس نے بھی میری سرخ انڈروئیر کھینچ لی۔میرا تھراتاہوا لنڈ اس کے لنڈ سے ٹکرایا اور مانو چنگاریاں پھوٹ پڑی اور میں نے اس کے جسم سے اپنا جسم بھینچ لیا۔میرا نچلا نازک سا حصہ اس کے بھرے ہوئے نچلے حصے سے ٹکرارہا تھا ۔میرا لنڈ اس کے لنڈ سے باتیں کررہا تھا۔دیر تک وہ میرے منہ کی کسنگ کرتا رہا۔ او سعد ۔۔ ۔ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔تم سے پہلے تم سے بھی خوبصورت لڑکوں کے ساتھ میں نے ایسا کیاہے لیکن میری جان جو مزاہ مجھے تمہارے ساتھ آیا ہے وہ کسی کے ساتھ پہلے نہیں آیا۔تمہارے اندر کوئی ایسی کشش ہے کہ میں بھی پاگل ہوگیا ہوں۔ آئی لو یو مائی ڈارلنگ۔ ۔ ان جملوں کے ساتھ اس نے میری کسنگ بھی جاری رکھی اور پھر بڑی نرمی سے اس نے مجھے ہلکا سا پیچھے ہٹا کر میرے لنڈ پر نظر ڈالی ۔میرا لنڈ تقریبا ساڑھے پانچ انچ لمبا تھا اور اس کے اپنے لنڈ کے مقابلے میں کافی پتلا تھا لیکن بلکل سیدھا اور تنا ہوا تھا۔ میرا لنڈبالکل سفید دودھ جیسا اور بے داغ تھا۔میرے لنڈکو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے میرے تنے ہوئے لنڈ کو پکڑا اور آہستہ آہستہ اسے سہلانے لگا ۔اس کے ہاتھوں میں میرا لنڈہچکولے کھا رہا تھا۔پھر وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور کئی لمحوں تک میرے لنڈ پر نظر جمائے رہا۔آنے والے وقت کے تصور سے میرے اندر ہیجانی سی کیفیت طاری ہوگئی اور پھر وہی ہوا جو میں سوچ رہا تھا۔اس نے اپنے بڑے سے منہ میں میرا پورا لنڈ لے لیا۔اس کے گرم گرم منھ میں جا کر میرا لند جیسے سلگ اٹھا اور میری ایک ہیجانی سی چیخ نکل گئی۔مین نے پھر اس کے بال جکڑلیے جیسے لذت اگر ناقابل برداشت ہو گئی تو میں اسے بالوں سے جکڑ کر روک دونگا۔لیکن یہ لذت تو جتنی بڑھتی ہے اتنا ہی مزاہ آتا ہے۔وہ باقاعدہ آواز کے ساتھ میرا لند چوس رہا تھا اور اندر باہر کررہا تھا۔میرے لند کا سرا اس کے حلق سے جا کر ٹکرارہا تھا اور اس کا تھوک میرے پورے لند کو نہ صرف گیلا کر گیا تھا بلکہ باقاعدہ باہر رس رہا تھا۔اس کے وحشیانہ تابڑ توڑ چوسے نے میرا لند اکڑا دیا تھا اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔آخر میں چلایا بس امجد بس۔ ۔امجد نے میرا لند چوسنا چھوڑدیا ۔میرا لند بری طرح جھٹکے کھا رہا تھا۔وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میری گاند دبانے لگا۔اس کا ہاتھ میری گاند کی لکیر کے گرد گھوم رہا تھا۔میں اپنی اتھل پتھل سانسوں کو کنٹرول کررہا تھا۔اس دوران اس کی انگلی میری گاند کی لکیر کو آہستہ آہستہ چیررہی تھی۔اور پھر میں نے محسوس کیا کہ اس کی انگلی کا سرا میرے سوراخ کے گرد ٹھرگیاہے اور پھر مجھے اپنی گاند کے سوراخ پر اس کی انگلی چکراتی محسوس ہوئی۔یہ ایک نیا مزاہ تھا جس کا مجھے زرا آئیڈیا نہ تھا۔سنسنی کے مارے میری گاند کا سوراخ پھڑپھڑانے لگا۔پھر اس کی انگلی کا دبا میرے سوراخ پر بڑھ گیا۔میں نے ایک سسکاری لی۔اس نے پیش قدمی جاری رکھی۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خواری کے عالم میں ہے۔اس نے انگلی کو اور اندر کی طرف پش کیا اورشاید اس کی انگلی ناخن تک اندر گھس گئی لیکن میں خود تکلیف سے ہلکے سے چیخا تو اس نے فورا انگلی کھینچ لی اور میرے لند والی جگہ میں پھر اپنا منہ رکھ کر میرے لند سے رگڑنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ سخت بے خودی کے عالم میں ہے۔سعد۔ ۔ او مائی بوائے۔ ۔میں کیا کہوں تم کک۔ ۔ ۔ کیا چیزہو? میں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔مم ۔ میں نے آج تک کبھی کک۔ ۔ کسی سے گاند نہیں مروائی۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا تم ہاں میرے دوست تم مم ۔ ۔ میری گاند مارنا پپ ۔ ۔ پسند کروگے?میرا دل ان لفظوں کی ایکسائٹمنٹ سے اچھل پڑا۔میرے لند نے اوپر نیچے دوچار جھٹکے لئے۔مجھے اس سے اس پروپوزل کی امید نہ تھی۔یا تو میرا جادو اس پر پوری طرح چل گیا تھا یا پھر وہ میرا چھوٹا سا لند اپنی گاند میں لیکر بدلے میں اپنا بڑا سا لند میری گاند میں ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن ایک اور خیال نے میرا دل بٹھادیا۔اگر امجد نے آج تک گاند نہیں مروائی تھی تو پھر ثاقب۔ ۔۔ کیا ثاقب نے بھی نہیں?سوچ کے ساتھ ساتھ میرے منہ سے نکل گیا۔امجد نے چونک کر مجھے دیکھا ۔اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگیا۔نہیں۔ ۔  وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔ثاقب کو چکنے اور کم عمر لونڈے پسند ہیں۔تمہارے جیسے۔اس کا دل ایک سے دوچار ملاقاتوں میں اکتاجاتاہے آخری جملہ مجھے اضافی لگا۔شایدمجھے ثاقب سے بدزن کرنے لئے۔لیکن میرا دماغ تو ایک اور مسئلے میں پھنس گیا تھا۔اگر ثاقب امجد سے گاند نہیں مرواتا تھا تو اس کا لند تو چوستا تھا ۔تعلق تو تھا۔تو کیا۔ ۔تو کک۔ ۔ کیا تم اس کی۔ ۔ گاند۔ ۔ ۔ میں جملہ پورا نہ کرسکا۔وہی چشم تصور سے پھر میں نے دیکھا کہ ثاقب الٹا ننگا ہوکر لیٹا ہوا ہے اور امجد اپنا موٹا کالا لند ثاقب کی گدرائی ہوئی گاند کے سوراخ پر رکھ کر دھکا لگا رہاہے اور چند لمحوں میں ایک طویل چیخ کے ساتھ ثاقب نے اس کا پورا لند اپنی گاند میں لے لیا۔نہیں  امجد کا جواب کافی دیر بعد آیا۔جانے کیوں میرے دل میں اطمینان کی ایک لہر ڈور گئی۔ثاقب نے شاید کبھی کسی سے گاند نہیں مروائی۔میرا صرف لند چوسنا اسے اچھا لگتا ہے۔اسی دوران وہ دراز میں سے کریم کی ایک ٹیوب اٹھالایا اور بہت ساری کریم نکال کر میرے لند پر بکھیر دی۔اس نے میرا لند لینے کا پورا ارادہ کرلیا تھا۔میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں اسے روک دوں پر میری ہوس میرے دماغ پر غالب آگئی اور میں خاموشی سے اسے کریم میرے لند پر مسلتے دیکھتا رہا۔اس نے دوبارہ کریم نکالی اور میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹیوب ایک سمت پھینکی اور خود بستر کے کنارے پر بیٹھا۔ٹانگیں نیچے کئے ہوئے وہ پیٹھ کے بل لیٹا۔اپنی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں چیریں اور پھر اپنے ہاتھ کی کریم ساری اپنی گاند کے سوراخ کے گرد بکھیردی اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنی موٹی سی درمیانی کریم آلود انگلی اپنے سوراخ پر رکھی اور اسے دبایا ۔اس کی پوری انگلی گاند میں گھس گئی۔اس دوران اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا تھا ۔اس کی بھری بھری گاند پوری طرح میرے سامنے تھی اور اس کا کالا گول سوراخ پوری طرح کھل کر سامنے آگیا تھا۔اس منظر نے میرے دل میں ایک آگ سی لگادی۔میرا سر جلنے لگا۔پھر اس نے لیٹے لیٹے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھادی۔او مائی گوڈ میں ٹرپ اٹھا ۔اس نے میری طرف دیکھا اور ایک سسکاری بھری آواز میں بولا آ جان۔ ۔ میری گاند تمہارے لند کا انتطار کررہی ہے۔۔مم ۔ ۔ میں نہیں کر۔ ۔ پانگا۔ ۔میرے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی،نو پروبلم ۔ ۔ تم کوشش تو کرووہ فل موڈ میں تھا۔میں آگے بڑھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں آگیا۔میرے ہیجان کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا ابھی میرا لند پھٹ پڑیگا۔ہمت مجتمع کرکے میں نے اپنا تیر کی طرح سیدھا لند اس کے کالے سے سوراخ پر رکھا۔اس نے ایک سسکاری بھری۔میرا لند تھر تھرایا۔مجھے لگا کہ میں ٹچ کرتے ہی چھوٹ جانگا۔میں نے پیش قدمی روک کے اپنی سانس روک لی۔لند بری طرح اچھلا ۔کچھ توقف سے ہیجان کم ہوا تو میں نے سوراخ پر اپنا لند دبایااور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس کی گاند پر اور میرے لند پر لگی کریم نے دونوں کو اتنا سلپری کردیا تھا کہ ایک ہلکے سے دبا کے ساتھ میرا لند پھسلتا ہوا اس کی گاند میں گھستا چلا گیا۔اس کی تیز کراہ پر میں وہیں ساکت ہوگیا۔میرا پورا لند اس کی گاند میں تھا اور اس کی کراہ خاصی طویل تھی۔اس نے شدت درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔مجھے تعجب ہوا۔ جتنی آرام سے لند اس کی گاند میں گھسا تھا اس سے تکلیف تو ہونی ھی نہ چاہئے تھی۔وہ شاید ایکٹنگ کررہا تھا تاکہ اس کی باری پر میں بھی برداشت کروں۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوگیا تھا۔دل چاہا کہ اپنا لند اس کی گاند سے نکال لوں اور شاید وہ یہ بات بھانپ گیا کہ میں شش و پنج میں مبتلاہوگیا ہوں اور اس نے تکلیف دہ آواز میں کہا کہ میں رکوں نہ۔ میرا دل پھر میرے دماغ پر حاوی آگیا۔رکنے کا ایک فائدہ بھی ہوا کہ میں اس پیک پر تھا کہ اگر میں اپنا لند اسی وقت باہر کھینچ لیتا تو میری منی فورا نکل جاتی ۔وہ پورا منظر مجھے بے چین کئے ہوئے تھا ۔وہ بستر پر اوندھا لیٹا تھا ، اپنے ہی ہاتھوں سے اس نے اپنی دونوں ٹانگیں چیری ہوئی تھیں اور اس کی دونوں بھری بھری رانوں کے درمیاں میں خود تھا۔میرے سامنے اس کا ہچکولے کھاتا بڑا سا لند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میرا اپنا لند اس کی گاند میں تھا جو اس وقت فل ہاٹ ہورہی تھی۔اس گاند کی دیواروں نے میرا لند جکڑ رکھا تھا۔میں ہوائوں میں اڑرہا تھا ۔جوش اور جنون کے آخری عالم میں میں نے سب کچھ بھلا کر اپنا لند اس کی گاند میں اندر باہر کرنا شروع کردیا۔وہ کراہ رہا تھا ۔مزے سے یا تکلیف سے مجھے نہیں پتہ لیکن میں باقاعدہ مزے کے عالم میں چلارہا تھا۔میرے جسم کی تمام رگیں تن کر میرے لند کیساتھ شریک ہوگئیں تھیں۔میری ٹانگیں اس کی گاند سے ٹکرا کر آوازیں پیدا کررہی تھیں۔میرے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر تھے جس سے اس کی گرمی کا احساس ہورہا تھا۔اس کی گاند میں تو جیسے ہیٹر چل رہے تھے جس کی تپش سے میرا لند سلگ رہا تھا۔وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔اب جوہونا تھا وہ بھگتنا تھا پھر مزے کو کیوں پس پشت ڈالا جاتا۔میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لند اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا تھا تو وہ اپنا سوراخ ڈھیلا چھوڑدیتا تھا اور جب میں اپنا لند واپس کھینچتا تھا تو وہ اپنے سوراخ کو بھینچتا تھا جس سے میرا لند اور اکڑجاتا تھا اور میرا مزاہ دوبالا ہوجاتا تھا۔میرا لند مسلسل اس کی گاند کے سوراخ کو رگڑرہا تھا ۔اندر باہرہورہا تھا ۔مستی کا ناقابل بیان عالم تھا کہ جس کے ہاتھون میرا اپنا وجود میرے بس میں نہ تھا۔بیان کرنے کو تو یہ ایک لمبا وقفہ ھے لیکن حقیقت میں یہ چند لمحوں کا کھیل تھا ۔خواری میرے سر پر  چڑھی ھوئی تھی کہ میں زیادہ دیرہولڈ کرہی نہیں سکتا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے میری پوری جان میرے لند کے راستے اس کی گاند میں ٹرانسفر ہوجائے گی۔میں پسینے میں تر بترہورہا تھا۔جیسے ہی مجھے لگا کہ اب رکنا ممکن نہیں میں نے اپنی رفتار بڑھادی اور پوری قوت سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر مجھے لگا کہ ایک گرم لاوا میرے ٹٹوں سے چھوٹ پڑاہو۔میں شدت لزت سے چلایا اور شاید امجد کو بھی احساس ہو گیا کہ میں چھوٹنے والا ہوں۔وہ ساکت ہوگیا اور پھر جذبات کا ایک طوفان میرے لند کے راستے منی کی صورت میں اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا چلاگیا۔پہلی چیخ پہلا فوارہ،دوسری چیخ دوسرا فوارہ ،تیسری چیخ تیسرا فوارہ۔میری جان فواروں کی شکل میں اس کی گاند میں اترتی جارہی تھی۔میں بری طرح ہانپ رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ میرے لند کی طرف اپنی گاند ہلا رہا تھا۔میں بری طرح تھک کر رک گیا تھا لیکن اس کی حرکت جاری تھی ۔وہ مسلسل آگے پیچھے ہورہا تھا۔اس کی طلب بجھی نہیں تھی۔اس کا اپنا لند بری طرح ہوا میں لہرارہا تھا۔ میں بہت جلد فارغ ہوگیاتھا۔اس احساس نے مجھے تھوڑا سا ڈسٹرب کردیا۔اپنی کمزوری کا احساس کرکے مجھے شرمندگی فیل ہوئی اور شاید اس نے اس بات کو نوٹ کرلیا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایااس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میراہھاتھ پکڑااور ایک جھٹکے سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔میرا لند جو کہ بلکل سکڑچکا تھا اس کی گاند سے نکل گیا اور میں اس کے سینے پر آکے گرا۔اس کا لوہے کی طرح تنا ہوا لند میرے پیٹ کے نیچے دب گیا تھا اور وہ ابھی تک آگ کی طرح تپ رہا تھا۔میرا منہ بالکل اس کے منہ کے اوپر تھا۔ڈونٹ وری یار۔`وہ خمار آلود نظروں سے مجھے دیکھتا ہوا بولاشروع شروع میں ایسا ہی ہوتاہے۔آدمی اتنا ٹینس اور ایکسائیٹڈ ہوجاتا ہے کہ چند لمحوں میں فیصلہ ہوجاتا ہے`یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف بھینچ لیا اور اس کے ہاتھ میری پیٹھ پر رینگنے لگے۔میری خواری ختم ہوچکی تھی اور میں بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اب وہ پھر مجھے برا لگنے لگا تھا۔اس کا سیدھاہاتھ رینگتا ہوا میری گاند کی لکیر پر ایا اور پھر دھیرے دھیرے لکیر کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور پھر میری گانگد کے سوراخ پر اس کی وہی انگلی ٹھہر گئی جس پر کریم لگا کر اس نے اپنی گاند میں ڈالی تھی۔میری تو جیسے سانس رک گئی۔مجھے سخت تشویش ہونے لگی۔دل چاہا اسے روک دوں لیکن پھر ثاقب کا خوبصورت چہرہ میری انکھوں میں اتر آیا۔امجد کے بغیر ثاقب سے ملاقات میرے جیسے شرمیلے اور بوکھلائے ہوئے لڑکے سے ناممکن تھی اور ثاقب تو جیسے میرے لئے زندگی کی شکل اختیار کرگیا تھا۔میں امجد کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔میں نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے اور اپنی سانسیں بھی روک لیں ۔امجد نے میری گاند کے سوراخ پر اپنی سلپری انگلی کا دبا بڑھایااور اس کی آدھی انگلی سلپ ہوکر میری گاند میں گھس گئی۔میری نہ چاھتے ہوئے بھی تکلیف سے کراہ نکل گئی۔اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئے اور ساتھ ہی انگلی پر دبا بڑھا کر پوری انگلی میری گاند میں گھسیڑدی۔میں اس کے جسم پر ہی ہلکا سا اچھلا۔اس نے دوسرے ہاتھ سے مجھے خود پر سنبھالا۔ساتھ ہی میرے ہونٹ چوسنے لگا۔اس کے اور میرے درمیاں اس کا بڑا سا لوہے کی طرح سخت لند دبا ہوا تھا جس کے ہولناک سائیز نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔انگلی پوری اندر گھس چکی تھی ہلکے سے درد کے ساتھ مجھے ایک انجانا سا کیف بھی محسوس ہوا۔وہ آہستہ آہستہ اپنی انگلی اندر باہر کررہا تھا۔ایک ہلکا سا وجد مجھ پر طاری ہوا اور میرے اپنے بیٹھے ہوئے لند میں ہلکی سی جھرجھراہٹ پیداہوئی۔کاش اس کا لند بھی اتنا ہی ہوتا جتنی اس کی انگلی تھی تو کتنا مزاہ آتا لیکن اس کا لند کئی گنا بڑا تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ لند میری گاند پھاڑدیگا۔وہ دیر تک اپنی انگلی میری گاند میں گھماتا رہا ۔ساتھ ساتھ وہ مجھے دوسرے ہاتھ سے اپنے سینے پر دبائے ہوئے تھا۔اس کے لند کا گرم دبا سے میرا پیٹ دب گیا تھا۔ساتھ ہی وہ میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔پھر اس کی زبان میرے منہ میں دوڑنے لگی۔اس کی سانسیں اکھڑ گئیں تھیں اور وہ بہت بے صبراہورہا تھا۔جب اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تو اس نے مجھے اپنے سینے پر سے اتارا اور کھڑا ہوگیا۔اس نے پاس پڑی کریم کی ٹیوب اٹھائی اور بہت ساری کریم نکال کر کر اپنے لند پر مل دی۔خوف کے مارے میری جان نکل گئی تھی مگر میں خاموشی سے دیکھنے پر مجبور تھا۔مین اپنی باری کا مزاہ لے چکا تھا۔اب اس کو کس منہ سے منع کرتا۔اب کی بار اس نے مجھے دیکھے بغیر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے الٹا پلنگ پر لٹادیا۔میں الٹا لیٹا خوف سے آہستہ آہستہ لرز رہا تھا۔پھر مجھے اس کا ہاتھ دوبارا اپنی گاند پر محسوس ہوا اور پھر کریم میں لتھری ہوئی اس کی انگلی بڑے پیار سے میری گاند میں اتر گئی اور وہ اس کو سرکل کی شکل میں گھمانے لگا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ میرے سوراخ کو اپنا لند لینے کے لئے ہموار کررہا تھا۔پھر مجھے اچانک اس کی دوسری انگلی بھی اپنی گاند کے سوراخ پر فیل ہوئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اس نے دوسری انگلی بھی میری گاند میں گھسیڑدی۔درد اتنا تھا کہ میں کراہنے لگا۔اس نے دونوں انگلیاں ایک ساتھ اندر باہر کرنا شروع کردی۔میں کراہتا رہا اور اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ایک عجیب سا احساس تھا جو درد کو مزے میں تبدیل کررہا تھا۔وہ انگلیاں گھما گھما کر میرے سوراخ کو بڑا کررہاتھا تاکہ میں اس کا لند کم سے کم تکلیف کے ساتھ اپنی گاند میں لے سکوں ۔اور پھر وہ لمحہ بھی آگیا۔اس نے انگلیاں میری گاند سے نکال لیں اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور اسی کے ساتھ میں نے اس کا کھولتا ہوا لند اپنی گاند کی لکیر پر محسوس کیا۔میں ایک دم ساکت ہوگیا۔اس کا لند پھسلتاہوا ٹارگٹ کی طرف بڑھا اور پھر میرے سوراخ پر آکے ٹھہر گیا۔میرا سارا بدن ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔اس کے گرم لند کے ٹوپے کا دبا میرے سوراخ پر بڑھا ۔میں نے اپنے دانت بھیچ لئے۔اس نے زور لگایا۔میں نے اور زور سے اپنے دانت بھینچے۔ایک جھٹکا لگا اور اس کا صرف ٹوپا میری گاند میں گھس گیا اور برداشت کے باوجود میری بھیانک چیخ نکل گئی۔اپنی زندگی میں میں کسی ایسے درد سے نہ گزرا تھا۔اس نے بوکھلا کر اپنا ٹوپا باہر نکال لیا۔میں پلٹ کر بیٹھ گیا۔شدتِ تکلیف سے میں ابھی تک کراہ رہا تھا۔میری انکھیں آنسووں سے لبریزہوگئی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ مایوس کن نظروں سے مجھے دیکھ رہاہے۔اس کا لندہوا میں بری طرح بل کھا رہا تھا۔یہ یقینا ناانصافی تھی کہ اسے یوں خوار چھڑدیا جائے۔ سوری۔ ۔ ` میں نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا اور پھر دل پر جبر کرکے دوبارا الٹاہوکر اپنی گاند اس کے لند کی طرف کردی اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اپنا لند میری گاند میں ڈالنے کے لئے اپنے لند کا ٹوپا میری گاند کی لکیر پر رکھے۔انتظار کچھ لمحہ طویل ہوگیا اور پھر اس کے لند کے بجائے اس کا ہاتھ میرے کندھوں پر آیا اور اس نے مجھے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کردیا۔میں حیران ہو کر اس کی شکل دیکھنے لگا۔وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا۔چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کہ یہ ابھی کیا جائے۔پھر سہی۔`وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھتا ہوا بولالیکن۔ ۔ ۔ `میں نے اس کے کھڑے لند کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔سعد ائی لو یو۔پیار میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی۔`وہ بڑے خمار آلود لہجے میں بولاایسے مزے پر لعنت ہے جس سے تمہیں تکلیف ہو۔` اس کی اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔میں نے شکرگزار آنکھوں سے اسے دیکھا۔یقینا وہ مجھے شکل سے اچھا نہیں لگا تھا مگر وہ دل کا اچھا تھا۔اس کی محبت کا اظہار البتہ مجھے ڈسٹرب کررہا تھا کیونکہ مجھے تو ثاقب سے محبت تھی لیکن اطمینان طلب بات یہ تھی کہ اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ہوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر آکر اپنی زبان میرے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہیں ہورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک آیا ہواتھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا لند آگے پیچھے ہوکر ہم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ہیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منہ چوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے آپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ہوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح آہیں بھر رہا تھا ۔پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ہوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اکر اپنی زبان میرے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہیں ہورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک آیا ہواتھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا لند اگے پیچھے ہوکر ہم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ہیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منہ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے آپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ہوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح آہیں بھر رہا تھا ۔ طوفان تھمنے کے بھی کئی دیر تک وہ مجھے میرے منہ میری زبان چوستا رہا۔اس کا سارا وجود میرے اوپر کانپ رہا تھا۔ اس کا لند تھا کہ ٹھنڈاہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔نہ ہی اس کے سائیز میں کوئی فرق آرہا تھا۔اس کی دھیڑ ساری منی سے دونوں کا جسم لتھڑ گیاتھا۔تھوڑی دیر بعد وہ پلٹ کر برابر میں سیدھا لیٹ گیا اور پھرہاتھ بڑھا کر مجھے خود پر کھینچ لیا۔وہ مسکرایاآج تو مجھے مزہ آگیا۔تم کو اچھا لگا` میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔تم سے مل کر مجھے لگا ہے جیسے کوئی ادہورا پن ختم ہوگیا ھے۔میں آج بہت خوش ہوں`مجھے پھر ثاقب یاد آیا اور پھر مجھے وقت کا احساس ہوا۔میں نے اس سے کہا کہ بہت دیرہوگئی ہے گھر والے پریشان ہورہے ہونگے تو اس نے مجھ سے کہا کہ مین جلدی سے اپنا بدن دہولوں۔میرے بدن ہر پھیلی ہوئی اس کی منی سے مجھے بھی کراہت سی محسوس ہوئی۔مین نے جلدی سے اپنا بدن دھوکر کپڑے پہن لئے۔اس نے بھی یہی کیا۔اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس سے پوچھ لیاکیا ثاقب مجھ سے واقعی ملے گا`وہ اس سوال پر چونکا۔اسے شاید ابھی مجھ سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر پھیکے انداز میں مسکرایاکیوں نہیں تم بس تھوڑا سا انتظار کرو۔میں تمہیں چند دنوں میں فون کرونگا۔`پھر اس نے مجھے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ڈراپ کیا۔دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھرہاتھ ملا کر بائے کرکے چلاگیا اور میں ثاقب سے ملاقات کا تصور کرتے ہوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔مجھے امید تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ایک دن میں ثاقب میرے دل و دماغ پر چھاگیا تھا۔اب مجھے بے چینی سے آنے والے حالات کا انتظار کرنا تھا

  • اپنی کہانیاں ،آبیتیاں اور آراء adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔


Suhag Raat Shadi sy Pehly




  • یہ کہانی ویسے تو میرے دوست کی مامی کی ہے جس کو میں نے بھی چودہ ہے لیکن یہ پھر کبھی بتاں گا یہ کہانی اس نے مجھے بتائی ہے جس کو میں اپنے لفظوں میں اور اس کہانی میں خود کو ڈال کر لکھ رہا ہوںمیں بہت گبھرا رہا تھا کیوں کے میں جو کرنے جا رہا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا،یہ کہانی جو لکھ رہا ہوں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آپ سب دوستوں سے گزارش ہے کے اس کہانی کو پڑھ کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا لینا...
  • یہ کہانی صرف کچھ وقت کے مزے کے لئے ہے،اس کہانی میں سب نام فرضی ہوں گے،میرا نام طلحہ ہے یہ کہانی میری اور میری مامی کی ہے،ہوا کچھ یوں کے میرے مامو کی شادی تھی...... میں نے اپنے ماموں کی سہاگ رات منائی آپ سب پریشان ہوں گے لکین یہ کہانی آپ لوگوں کے مزے کے لئے لکھ رہا ہوں،ان کے ساتھ میرا ہر طرح کا مذاق تھا.. ان کی عمر بیس سال تھی اور میری عمر اس وقت ستراں تھی
  • ہم اکھٹے پوندی کرتے تھے کھاتے پیتے تھے.. جب میرے ماموں آٹھیس سال کے ہوئے تو ان کی شادی کر دی تھی،میری مامی کی عمر اس وقت چوبیس سال تھی.. میرے ماموں جو بھی بچی چود کر آتے مجھے بتاتے لکین میں نے ماموں کو کبی یہ نہیں کہا تھا کے مجھے بھی بچی کی پھدی دلوا ئو،میری مامی بہت پٹاخہ عورت تھی یہ مجھے ان کی سہاگ رات والے دن پتا چلا تھامیری مامی کے ممے چھتیس کے تھے بند ان کی بتیس کی تھی اور کمر اس کی تیس کی تھی بہت کمال کی رنڈی تھی،میرے مامو نے ایک لڑکی کے ساتھ زینہ کر لیا تھا وہ سیل پیک تھی شاید اس کی بد دوا لگ گئی تھی جو میرے مامو اپنے لن سے ھاتھ دھو بیٹھے،یہ بات مجھے اور مامو کو پتا تھی اور کسی کو نہیں پتا تھی..... میرے مامو کے بہت رشتے آئے تھے لکین میرے مامو ہر دفعہ انکار کر دیتے تھے یہ کہ کر کے مجھے شادی نہیں کرنی کبھی یہ کہہ کر کے لڑکی اچھی نہیں ہے پیاری نہیں ہے،لکین ایک دن ان کو اپنی ماں کی ضد کے آگے ہارنا پرا اور شادی کے لئے من گے تھے سب گھر والے خوش تھے ... لکین مامونے جب مجھے بتایا کے میں اب بھی شادی کے قابل نہیں ہوں تو میں نے ماموں سے پوچھا کے آپ من کیوں گے ہو مامو نے کہا تیری نانی نے ضد کی ہے تو مجھے ماننا پڑا.....میں نے کہا کے مامو جی اب کیا ہو گا مامو رو پڑے اور کہا کے ہونا کیا ہے میرے ساتھ ایسا ہونا چاہیے تھا میں نے مامو کو تسلی دی اور کہا کے آپ کسی حکیم کو چیک کرا ہو سکتا ہے کوئی بات بن جانے مامو نے کہا کے میں نے بہت سے حکیموں سے بات کی ہے لکین کوئی فرق نہیں پڑا ہے یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلے گے اور میں نے ان سے اور بات کرنا مناسب نہیں سمجھا..............مامو اپنے لن سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یہ مجھے نہیں پتا تھا یہ تو مجھے بعد میں پتا چلا جب ہم لڑکی دیکھ کر آئے تھے،مامو کے جانے کے بعد میں سوچ رہا تھا کے ان کی بیوی ان کا ساتھ دے گی کیا وہ ان کے ساتھ ایسے گزارا کر لے گی کیا وہ ان کے ساتھ ساری زندگی اسے گزر دے گی ................ان باتوں کو سوچ سوچ کر میرے سر میں درد ہونے لگ گئی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی کے میں مامو کی کس طرح مدد کروں....... مجھے مامی پر رہ رہ کر رونا آ رہا تھا بیچاری اب ان کے ساتھ کیسے زندگی گزرے گی.... خیر میں نے بھی یہ سوچ لیا تھا کے مامو کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے تھا انہو نے کسی کی زندگی خراب کی ہے ان کی ساتھ تبھی ایسا ہو رہا ہے.......... خیر میں اپنے کام میں مصروف ہو گیا پتا نہی چلا کے کب رات ہوئی . رات کو مامو کے ساتھ دوبارہ بات ہوئی وہ بہت پریشان تھے مجھے کہتے کے آ باہر سے کچھ لے آتے ہیں میں نے بھی کہا کے ٹھیک ہے پھر میں تیار ہو گیا کپڑے پہنے اور ہم دونو کچھ کھانے کے لئے چلے گے راستے میں مامو روتے رہے مجھے ان کی اس حالت پر بہت ترس آ رہا تھا لکن پھر میرے ذھن میں صبح والی بات آ گئی اور مجھے ان پر غصہ آنے لگ گیامیں نے دل میں سوچا کے کیوں کسی کی زندگی خراب کی ہے آج اپنے اوپر بنی ہے تو پتا چل رہا ہے پھر میں نے مامو کو جوٹھی تسلی دی اور کہا کے مامو کچھ نہیں ہوتا اپ صبر سے کام لو کچھ نہ کچھ ہو جاے گا لکن مامو مسلسل رو رہے تھے مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کے میں کیا کروںمیں نے کہا مامو اگر اپ چپ نہ ھوے تو میں نانی امی کو آپ کی یہ بات بتا دوں گامامو نے کہا کے پاگل ہے اگر یہ بات بتائی تو میں اپنی جان دے دوں گا میں نے کہا کے مامو پھر آپ چپ ہو جو مجھ سے آپ کا رونا نہیں دیکھا جاتا یہ اپ کی حالت نہیں دیکھا جا رہی،میں تو اوپراوپر سے یہ باتیں کر رہا تھا لکن مامو سمجھے کے یہ بات سچ ہے اور مجھے ان کی حالت پر ترس آ رہا ہے اور وہ چپ ہو گے،خیر ہم ایک ہوٹل کے پاس جا کر رکے... وہاں سے کھانا کھایا اور گھر آ گئے اگلے دن لڑکی والی اے مامو کو پسند کر کے کچھ رسمے کر کے چلے گے اب ہماری باری تھی ہم نے کچھ دنو بعد جانا تھا لڑکی والی مامو کی تصویر لے گے تھے اپنی بیٹی کو دکھانے کے لئے مامو نے سارا دن مجھ سے بات نہیں کی میں بھی حیران تھا مامو کو کیا ہوا ہے میں مامو کے کمرے میں گیا تو وہ رو رہے تھے میری نانو اور گھر والے سب لڑکی کے گھر جانے کی تیاری کے لئے باہر سے کچھ سامان لینے گے تھے۔مامو کیا ہوا ہے،مامو نے چپ ہونے کا ناٹک کیا اور کہا کے کچھ نہیں ہوا میں نے مامو کو کہا کے مامو اپ نانی کو کہو کے مجھے رشتہ پسند نہیں آیا میںنے ابھی شادی نہیں کرنی مامو پاگل ہے تو تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے اب سب تیاریاں ہو رہی ہیں اور میں منا کر دوںتو مامو اپ پھر روتے کیوں ھو اگر کچھ نہیں کر سکتے مجھے بتا میں نانی سے بات کر لیتا ہوں میں اپ کی مدد کر لیتا ہوںمامو نے کہا کے تو جا میں خود کچھ کر لوں گارات کو گھر والے سب آئے مامو نے باہر سے کھانا لیا اور کھالیااگلے دن میں اپنے گھر آ گیا لکن مامو کے ساتھ روز فون پر بات ہوتی تھی وہ روز روتے تھے اور پھر فون بند کر دیتے تھے .خیر ایک دن مامو نے مجھے فون کیا اور کہا کے لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں تو بھی آ جا اپنی مامی کو دیکھ آمیں نانو کے گھر چلا گیا سب تیار تھے میرا انتظار ہو رہا خیر ہم سب لڑکی دیکھنے چلے گے.... راستے میں مامو نے مجھے کہا کے لڑکی کی تصویر لے آنا. میں نے کہا کے ٹھیک ہے،کچھ دیر بعد ہم لڑکی والوں کے گھر پونچھ گے انہو نے ہمارا سواغت کیااب لڑکی کو دیکھنے کی باری تھی کافی ساری لڑکیاں ہمارے سامنے آئیں لکین وہ لڑکی نہیں آ رہی تھی جو میرے مامو کی بیوی بننے والی تھی........... ایک لڑکی ائی اس نے اپنا کند نکالا ہوا تھا لڑکی کی ماں نے میری نانی کو کہا کے یہ لڑکی ہے نانو نے کہا کے اچھی تربیت دی ہے اس کو اپ نے لڑکی کی ماں نے کہا کے شازیہ اپنا دوپٹہ اتارو اس نے دوپٹہ اتارا تو ہم سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گے اتنی خوبصورت لڑکی میرے مامو کی بیوی بنانے جا رہی تھی نانی نے تو اور بات نہیں کی لڑکی کو پسند کر لیا اور شگن کر لئے اور پھر سب کو مبارک بعد دی سب کزن ان نے بات کر ر ہی تھے اس کے ساتھ تصویراتروا رہے تھے میں نے بھی تصویر اتروائی .... مامی کے ساتھ بات کی میں نے پوچھا کے مامی اپ کو میرے مامو کیسے لگے انہو نے شرماتے ھوے کہا کے بہت اچھے لگے اور یہ کہ کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئی پھر ہم لوگ بھی گھر آ گے گھر آ کر مامو کو لڑکی کی تصویر دکھائی تو مامو اپنے کمرے مے چلے گے اور پھر سے رونے لگ گے میں نے مامو کو کہا کے کچھ نہیں ہوتا اپ کسی حکیم سے بات کرو آپ کا مسلہ حل ہو گا آپ ایک دفع اور بات کرو لیکن مامو مسلسل رونے لگ گے میں کمرے سے باہر آیا تو نئی خبر سننے کو ملی وہ یہ کے لڑکی والوں نے کہا ہے کے وہ شادی ایک ہفتے میں کرنا چاھتے ہیںنانی نے کہا کے اس لئے تیاری بہت جلد کرنی ہو گی میں اس وقت مڑا اور مامو کو جا کر یہ بات بتائی مامو نے کہا کے میں نے سوچ لیا ہے کے میں کچھ کھا کے مر جاں گامیں نے مامو کو کہا کے اپ اسی حرکت نہ کرو میں اپ کے کام آئوں گا اپ میرے ساتھ چلو حکیم کے پاس مامو نے کہا کے میں خود جاں گاپھر وہ اٹھے اور باہر چلے گے رات گے تک مامو گھر نہ آئے ہم سب پریشان تھے لکین مامو آئے تو سب کی جان میں جان آئی مامو بہت خوش تھے مامو اپنے کمرے میں گے نانو بھی چلے گئی اور میں نانو نے ماموسے پوچھا کے اتنی دیر سے کیوں آئے ہو مامو نے کہا کے دوستوں کو دعوت دینی تھی شادی کی نانو نے کہا کے جلدی تیاری کر لو ایک ہفتے کا وقت دیا ہے اس لئے جو جو کرنا ہے جلدی کرونانو گئی تو مامو کو کہا اپ کو کہا تھا نہ کے آپ جا حکیم کے پاس اب خوش ہو نہ مامو نے کہا کے میں جو بات تم نے کرنے لگا ہوں تم کو سن کر دکھ ہو گا لکین میری عزت کا سوال ہے میں نے کہا کے مامو بولو انہو نے کہا کے سہاگ رات تم منا ئوگے یہ کہہ کر مامو کی نظریں نیچے جھک گئی ما ما ما مامو آپ یہ کیا کہ رہے ہو مامو نے کہا کے میں نے بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے،تم نے کہا تھا کے مامو میں آپ کے کام آئوں گا اپ کی مدد کروں گا اب تمہاری باری ہے،میں نے کہا کے مامو یہ غلط ہے مامو نے کہا کے میں مر جاتا ہوں اور کیا کروں بتا مجھے جواب دومیں نے کہا کے مامو اپ کچھ اور سوچو انہو نے اپنی شلوار اتری اور کہا کے یہ دیکھو میرا لن نہیں ہے میں مامو کی اس حرکت پر حیران تھا مجھے غصہ آ رہا تھا مامو کی اس حرکت پر مامو رو رہے تھے میں نے کہا کے مامو اپ کچھ نہ کرنا میں اپ کا ساتھ دوں گا مامو خوش ھوے اور کہا کہ ٹھیک ہے لکین یہ بات کسی کو نہ بتانا میں نے کہا ک ٹھیک ہے پھر میں مامو کے کمرے سے باہر آ گیا.مجھے مامو کی بات پر غصہ بھی آ رہا تھا اور حیرانگی بھی پر میں کیا کرتا ایک جان کو بچانے کی بات تھی،اس لئے مجھے ہاں کرنی پڑی جب میں کمرے سے باھر آیا تو میں اس سوچ میں گم تھا کے مامو ایسے سوچ بھی کیسے سکتے ہیں.وہ مجھ سے کیسے بات کر سکتے ہیں انہو نے ایسا کیوں کہا کے میری سہاگ رات تم منا گے..باھر آیا تو نانی نے کہا کے اب تم ادھر رہو گے جو بھی شوپنگ کرنی ہی مجھے بتا دینا میں کروا دوں گی تمہاری ماں بھی کل آ رہی ہے میں نے کہا کے ٹھیک ہے نانی جی پھر نانی نے کہا کے میرے ساتھ بازار چلو کچھ لانا ہے میں ان کے ساتھ چلا اور انہو نے کچھ کھانے کے لئے لیا اور پھر ہم گھر آ گے گھر آیا نہیں کے مامو نے کہا کے میرے ساتھ چلو میں ان کے ساتھ چلا گیا مامو نے کہا کے کسی کو نا بتانا میری عزت ہے میں نے کہا ک مامو آپ مامی کو کیسے منائو گے کہتے اس کا انتظام ہو گیا ہے میں نے کہا کے مامو کیا انتظام کرو گے مامو نے کہا وہ تم کو خود پتا چل جائے گا میں نے کہا کے بتا تو سہی مامو نے کہا کے خود دیکھ لینا میں مان گیا پھر انہو نے کچھ خریدا لکین مجھے نہیں بتایا میں نے بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا پھر ہم گھر آ گے سارا دن سو کے گزر گیا رات کو کھانا کھایا اور پھر سے سو گیا آگلے دن سب مہمان بھی آ گے تھے سب خوش تھے مامو بھی خوش....لکین ایک بات جو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یہ تھی کے مامو مجھ سے نظریں نہیں ملا رہے تھے جو کے حیرت والی بات تھی،میں نے سوچا شاید ایسے ہے ہو پھر گھر مے سب لوگ دھولکی بجانے لگ پڑے ہر طرف دھولکی کی آواز آ رہی تھی ..ہنستیں ہساتے دن گزر گے آج مامو کی تیل مہندی تھی سب کزن مامو کے ساتھ مذاق کر رہے تھے ان کو چھیڑ رہے تھے مامو بھی ان کے ساتھ خوش تھے... مجھے ان کی خوشی سے خوشی ہو رہی تھی،میں یہ سوچ رہا تھا کے ان کو خوش کروں نہ کروں لکین میںنے ھاں کہ دی تھی اس لئے میں یہ کام کرنے پے مجبور تھا تیل مہندی والی رسم پر مامو نے مجھے کہا کے کل کے لئے تیار رہنا ساتھ ہی انکی آنکھ سے آنسو بہ گیا میں نے کہا کے مامو اپ رو نہ سب اچھا ہو گا مامو نے بمشکل رونا چھوڑا اور مجھے کہا کے پانی پلا میں نے ان کو پانی پلایا پھر مامو کے دوست آگے ان کے ساتھ مامو مصروف ہو گے ہم کزن آپس میں شگل مگل لگانا شروع ہو گے مہندی کی رسم کب ختم ہی پتا نہیں اور تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آگئی..میں جب اٹھا تو بارات کی تیاری ہو رہی تھی مامو تیار ہونے گے تھے اور گھر میں کزن تھے میں نے ناشتہ کیا پھر تیار ہونے لگ گیا پھر مامو کا فون آیا میں نے اٹھایا تو مامو نے کہا کے تیار ہو جانے اپنی چھویں بھی صاف کر لینا میں مامو کی باتوں سے حیران تھا مامو اتنی کھلم کھلا باتیں کیسے کر سکتے ہے، مامو اپنی بیوی خود چودوانا چاھتے تھے تو مجھے کیا مسلہ تھا..... میں نے چھویں صاف کی نہایا ناشتہ کیا اور پھر میں کزنو کے ساتھ باتیں کرنے لگ گیا انہو نے مامی اور اپنی چاچی نہیں دیکھی تھی ان کو میں نے اس کی تصویریں دکھائی سب نے مامی اور اپنی چاچی کی تعریف کی مجھے بھی ان کی خوبصورتی پر رشک آ رہا تھا...لکین میں اندر ہی اندر ان کی قسمت پر رو رہا تھا کے اس نے کون سا ایسا جرم کیا ہو گا جس کی ان کو اتنی بڑی سزا مل رہی ہے لکین افسوس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تھاخیر مامو تیار ہو کر آ گے تھے وہ بھی کسی ہیرو سے کم نہیں لگ رہے تھے لکین ہیرو نیچے سے زیرو تھا یہ صرف مجھے پتا تھا اور مامو کو،سب نے مامو کی تعریف کی لکین مامو اداس ہونے کی بجانے خوش تھے مجھے مامو کی خوشی کی وجہ صاف پتا لگ رہی تھی میں ایک طرف اس کام سے ڈر رہا تھا اور دوسری طرف مامو کی خوشی چاہیے تھی اور ان کی زندگی بچانی تھی میں مارتا کیا نہ کرتا کیوں کے میرے مامو تھے اور میں نے ان کو ان کے اس وقت میں ساتھ دینے کا بھی کہا تھا اس لئے میں دونو طرف سے پھنس چکا تھا ایک طرف مامو کو زبان دی تھی اگر اس سے انکار کرتا تو میرے مامو کی موت کی وجہ میں ہوتا.اور دوسری طرف مجھے مامو کی خوشی چاہیے تھی میں نے ہاں کر دی تھی لکین ڈر تھا کے اگر مامی نہ مانی تو مامو کی بدنامی کے ساتھ ساتھ سارے خاندان کی بھی بدنامی ہو جاتی.... میں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھاکہ مامو نے کہا کے کیا سوچ رہے ہومیں بوکھلا کے بولا،ما ما مامو کچھ نہیں،مامو نے کہا دیکھو میری زندگی موت تمہارے ہاتھ مے ہے میں نے کہا کے مامو پر یہ غلط ہے مامو نے کہا ٹھیک ہے میری بارات نہیں جائے گی میرا جنازہ اٹھے گا پڑھ کر جانایہ کہ کر وہ اپنے روم مے چلے گے سب ان کی اس حرکت پر حیران تھے لکین اس وقت کو سمبھالنا میرے ہاتھ مے تھاسو میں جلدی سے اوپر کمرے مے گیا اور مامو کو کہا کے دروازہ کھولو مامو نے کہا کے نہیں تم جا تم کو اپنے مامو کی خوشی نہیں چاہیے میں نے کہا کے مامو اپ جو کہو گے کروں گا لکین اپ باہر آئو....مامو نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں لال سرخ تھی مجھے واقعی دکھ ہو رہا تھا کے میں نے مامو کی اس بات کو کیوں نے مانا...میں نے مامو کو اندر کمرے مے لے کر جا کر کہا کے مامو اپ کا حکم سر آنکھوں پرمامو نے کہا ٹھیک ہے میری یہ بات مانو تم کو جو بھی ضرورت ہوئی بتا دینا میں نے کہا ٹھیک ہے پھر مامو کو کہا کے اپ کیسے منائو گے مامی کو تو مامو نے کہا کے یہ مجھ پر چھوڑ دومیں نے کہا ٹھیک ہے پھر نانی کمرے مے آ گئی کیا باتیں کر رہے ہو ماما بھتیجانانی کچھ نہیں مامو نے کہا امی جی یہ کہ رہا ہے کے اس کے پاس پیسے نہیں ھیں اس نے لوٹانے ھیں نانو نے کہا کے یہ لو پیسے انہو نے مجھے اپنے پرس میں سے دو تھادیاں تھی دس دس والی نوٹ کی اور کہا کے جی بھر کر لوٹاناپھر نانو نے کہا کے جلدی نیچے آ جائو بارات جانے والی ہے پھر میں اور مامو نیچے آ گے اور ہم سب گاڑی مے بیٹھنے لگ گے سب کزن گھر والے بھی راستے مے بہت مزہ کیا گانے گائے جگتیں کی...راستے مے مامو نے مجھے دو تین بار ایس ایم ایس کیا کے ڈرنا نہ میں ہم تمہارے ساتھ میں نے مامو کو کہا کے ٹھیک ہے لکین مامی کیسے مانے گی مامو نے کہا میں ہوں ابھی زندہ پھر بارات والی جگہ آ گئی سب لوگ اترے مامو بھی اپنی کار سے اترے..میں ہم ہال مے داخل ھوے لڑکی والوں نے ہمارا سوغات اچھے سے کیا ہم ہال کے اندر بیٹھ گے تھوڑی دیر میں لڑکی آئی سب کے سب کزنو کہ اورگھر والوں کے منہ کھل گے. مامو کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آنے لگ گے لکین میں جلدی سے آگے بڑھا اور مامو کو یاد دلوایا کے میں ابھی زندہ ہوں ساتھ ہی مامو نے اپنے غم کے آنسووں کو خوشی کے آنسووں مے بدل لیا میں نے شکر کیا کے کسی نے نہیں دیکھا لکین مامی نے اس بات کو شاید محسوس کر لیا تھا اور مامو کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی....میں نے اس بات کو اپنا وہم سمجھ کر ان دیکھا کر دیا تھا .پھر باقی رسمیں ادا کی کھانا کھایا اور رخصتی کا وقت آ گیا تھامامی بہت رو رہی تھی کیسے نہ روتی آخر اپنے ماں باپ سے جدا ہو رہی تھی پھر مامی کی رخصتی ہو گئی اور ہم مامی کو گھر لے آئے لکین واپس پر مامو کی گاڑی مے میں بھی بیٹھا تھاگھر آ کر گھر والوں نے کچھ رسمیں ادا کی.پھر مامو اور مامی اپنے روم مے چلے گیا سہاگ رات منانے. مامو اور مامی کو گے ھوے تیس منٹ سے زیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ باہر نہیں آئے تھے مجھے فکر ہو رہی تھی لیکن پھرکچھ دیر بعد مامی آ گئی اور ان کے پیچھے پیچھے مامو بھی آ گے گھر والی حیران تھے لکین مامو بھی خوش تھے اور مامی بھی میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کے یہ کیا معاملہ ہے کیا مامو نے مامی کو مانا لیا ہے یا پھر نہیںمیں یہ سوچ رہا تھا کے مامی نے مجھے کہا طلحہ تم چلو گے ہمارے ساتھ کچھ کھانے پینے گھر والوں سمیت میں بھی حیران تھا کے مامی آج کے دن سے میرے ستے اتنا گھل مل رہی ہے.میں اتنا خوبصورت بھی نہیں تھامیرے اور بھی کزن تھے انکو بھی مامی کہہ سکتی تھی لیکن مجھے کیوں مامو نے اس سے کیا کہا تھا مامی کو جو وہ تیس منٹ بعد من گئی تھی میری نانو نے کہا طلحہ بچے تیری مامی تو تیرے سے ابھی سے گھل مل رہی ہیں اچھی بات ہے تو آج سے ہی ان کو اپنی پسند نہ پسند بتا دے مامی نے کہا نانی جی اب میں اس کی مامی ہوں یہ مجھ پر چھوڑ دو میں صرف اس کا خیال نہیں رکوں گئی باقیوں کا بھی رکھوں گی نانی نے کہا یہ ہوئی نا اچھی بچیوں والی بات پھر مامو نے کہا کے تم لوگ جائویہ گاڑی کھولو میں ابھی آتا ہوںراستے مے میں مامی سے بات نہیں کر پا رہا تھا.مامی مجھ سے پوچھ رہی تھی کیا کرتے ہو کوئی دوست ہے تمہاری لیکن میں مامی کی بات کا جواب نہیں دے پا رہا تھامامی نے ہنستے ہوئے کہا کے تھوڑی دیر بعد کیا کرو گے میں نے پوچھا کے کب انہو نے کہا جہاں جا رہے ہیں خود پتا چل جائے،اتنی دیر مے مامو آ گے کیا بات کر رہے ہو تم دونو کچھ مجھے بھی بتا مامی نے کہا کہ یہ شرما رہا ہے اس سے کچھ ہو گا بھی کے نہیں مامو نے کہا کے مجھے نہیں پتا خود پوچھ لو مامی نے کہا کے شرماتا ہے چلو وہا جا کر پتا چل جاتے گامامو نے گھر فون کر دیا کے ہم لوگ کچھ دیر تک آ جائیں گے پھر ہم نے جوس پیا مامو نے مجھے بادام بھی لے کر دے کے کھا لینا... پھر ہم لوگ گھر آ گے میں سارے راستے یہ سوچتا رہا کے مامو نے ایسا کیا کہا ہے کے مامی بنا شرماے مجھ سے بات کر رہی ہے پھر ہم گھر آگے تو نانو جاگ رہی تھی نانو نے کہا کے آ گے ہو گھر والے سب سو رہے تھے نانو بھی سونے چلے گی پھر میں اپنے روم مے اگیا تو مامو نے مجھے کال کی اور کہا کے نیچے آئو میں نیچے آ گیا تو مامو نے کہا کے اندر جا میں نے کہا کے اپ کدر جا گے تو مامو نے کہا کے دوسرے کمرے مے تو میں نے کہا کے مامو جی مامی مان گئی ہے مامو نے کہا ہاں تو میں نے پوچھا کے کیسے تو انہو نے کیا کے خود پوچھ لینا میں نے کہا کے ٹھیک ہے.... پھر میں ڈرتے ڈرتے اندر آگیا مامو نے اپنے کپڑے اترے ہوئے تھے اور رات والے کپڑے پہنے تھے مامو نے کہا کے جلدی کرنا کیوں کے نانو تیری نے کچھ دیر بعد جانا ہے اور میرے سالوں نے بھی آجانا ہے مامی نے کہا کے اپ جا اب میں مامو اور مامی کی باتیں سن کر شوک میں تھا مامی نے کہا سوچو نہ کل ولیمہ ختم ہونے دو مجھے اپنی ماں کے گھر سے آنے دو پھر سب بتا دوں گئی پھر مامی نے کہا اپنے کپڑے اتارو میں نے کہاتھا تھا ٹھیک ہے لکین مجھے شرم آ رہی ہے مامی جی مامی نہ کہا کے شرم اتر دوں گی پہلے کپڑے اتارو پھر میں نے کپڑے اتارے ابھی میری شلوار نہیں اتری تھی کے مامی ننگی ہو کر بیٹھ گئی تھی..مجھے مامی کی اس حرکت نے مجھے چونکا دیا تھامامی نے کہا کے اتر بھی لو میرے بھولے راجہ میں نے پھر کپڑے اتارے میں نے مامی کو کہا کے مجھے کچھ نہیں کرنا آتا مامی نے کہا کے مے سیکھا دوں گی ابھی واش روم جا دھو کر آئو میں واش روم گیا لن کو دھویا پھر باہر آ گیا پھر مامی گئی اور وہ بھی دھو کر آ گئی..مامی اب بلکل ننگی میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی تھی ادھر مامی سوچ رہی تھی اور ادھر میں کے کون شروات کرے ہم دونو خاموش تھے. یہ خاموشی مامی نے توڑی اور کہا کے کچھ کرو گے کے تمھارے مامو آئیں اور تم کو کہیں کے اپنی مامی کو چودو میں مامی کے منہ سے یہ باتیں سن کر حیران ہو رہا تھا... پھر مامی اٹھی اور مجھے کہا کے میں لٹتی ہوں تم میرے اوپرآئو مامی اب لیٹ چکی تھی اور میں ان اوپر تھا ان کے چھتیس کے ممے میرے سینے کے ساتھ لگ رہے تھے میں کافی عرصے بعد پھدی لے رہا تھا اس لئے میرے اندر گرمی زیادہ ہو رہی تھی مامی نے کہا کے جنو اب شروع کر دو میں نے بھی بوتھ اپنا بھولا پن دیکھا دیا تھا. پھر میں نے مامی کے ماموں پر اپنا سینے کا وژن بڑھا دیا اور ان کو چومیاں کرنی شروع کر دی میں نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا میرا ڈر مامی کی باتوں نے ختم کر دیا تھا. اس لئے میں بنا ڈرے مامی کو چودنے والا تھا. مامی میرے نیچے والی ہونٹ چوس رہی تھی میں مامی کے اوپر والی ہونٹ چوس رہا تھا یہ سلسلہ پانچ منٹ تک چلاتا رہا پھر مامی نے مجھے نیچے لٹایا اور میرے اوپر آ گئی آتے سار انہو نے مجھے پیاسو کی طرح چومنا شروع کر دیا تھا... میں مامی کی اس حرکت سے گرم ہو گیا تھا نیچے سے وہ اپنی پھدی میرے لن کے ساتھ رگڑ رہی تھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ میرا لن اپنی پھدی مے لے لیں لکین میرا خیال تھا وہ میری ساری شرم اترنا چاہتی تھی اس لئے مجھے پاگلوں کی طرح چوم رہی تھی... مامی ساتھ ساتھ میرے بالوں میں اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی مجھے مزہ آ رہا تھا پھر اچانک مامی روک گئی مجھے لگا ان کی پھدی پانی چھوڑ گئی ہے لکین وجہ کوئی اور تھی مامی نے کہا کیوں جی اب میرے راجہ کی شرم اتری کے نہیںمیں نے کہا جی شازیہ جی اتر گئی ہے لگتا واقعی اتر گئی ہے جو میرا نام لے رہے ہو میں نے کہا جی انہو نے کہا ٹھیک ہے اب کرو جو کرنا ہے میں نے یہ حکم سمجھا اورپھر ان کی آنکھوں سے لے کرجسم کے ایک ایک انگ کو چومنا شروع کیا کبھی آنکھوں کو چومتا کبھی مموں کو کبھی پیٹ پر چمی کرتا کبھی ٹانگ پر گرز پورے جسم کو چوما تھا مامی مزہ سے پاگل ہو رہی تھی لکین وہ چاہتی تھی کے میں ان کی پھدی کو بھی چوموں اندر زبان دلوں لکین یہ میں مامی کے منہ سے سنانا چاہتا تھا آخر مامی بول پڑی....ظالم پھدی بھی ہے اس کو بھی مزہ دومیں نے پھدی کو کھولا رو مجھے عجیب سے خوشبو آئی جو میرے لن کو ہتھوڑا بنا رہی تھی میں نے بیتحاشا مامی کی پھدی کو چومنا شروع کر دیا ساتھ ساتھ مامی کے تانے ھوے نیپلز بھی دبا دیتا جس سے مامی کے منہ سے آہ نکل جاتی اور مجھے مزہ آتامیں نے مامی کی پھدی کو چوس چوس کر فل گیلا کر دیا تھا کچھ میرے تھوک سے کچھ ان کی پھدی کے پانی سے گیلی ہو گئی تھی میں نے مامی کو پوچھا مامی اپ نے کبھی چودوایا ہے مامی نے کہا لن ڈال کر دیکھ لے کے پہلے چودوایا ہے میں نے کے نہیں میں نے کہا اتنی جلدی مامی نے کہا کے ہاں..نہی مامی ابھی میرا للا چوسو پھر تمہاری پھدی ماروں گا مامی نے کہا اچھے میرے راجہ لیٹ جا میں چوستی ہوں تیرا لوراپھر مامی نے میرا لن منہ میںڈالااف مزہ آ گیامیں نے اسی چوپا ماسٹر کبھی نہیں دیکھی تھی کیا کمال کیا چوپا لگا رہی تھی میرے انگ انگ مے مستی پیدا ہو رہی تھی پھر مامی خود اپنی پھدی میرے مہ کے پاس لے کر ائی اور کہا کے تو میری پھدی چاٹ میں تیرا لورا چوستی ہوں میری پھدی پانی چھوڑنے والی ہے میں نے کہا میرا لن بھی پانی چھوڑنے والا ہے پھر مامی نے لن کا ایسا چوپا لگانا شروع کر دیا کے میری زبان مامی پھدی کے اندر خود با خود جانے لگ گئی منی کبھی میرے لن کو چوستی تو کبی رنڈیوں کی طرح میرے ٹٹوں کو تو کبھی لن کی ٹوپی کو چوستی پھر میرا لن پانی شورننے کے قریب تھا مامی نے کہا کے اندر زبان ڈال فل ایسے اہ اف اہ مزہ آ گیامامی کی پھدی کا پانی میرے مہ مے تھا اور میرا پانی مامی کے منہ سے ہم دونو مزہ سے نڈھال ہو گے تھے جو مزہ مامی کے چوپے مے ساتھ اف لفظوں مے بیان نہیں ہو سکتا کیا چوپا ماسٹر تھی مامی اف مزہ آ گیا کمال کا لن چوستی ہو آپ اف تو بھی کم نہیں مزہ دے دیا آج تک نیٹ پر ایسے دیکھتی آ رہی ہوں آج اصل مے تو نے مزہ دے دیا ہے اب پھدی کو بھی مزہ دے میں پھدی صاف کر آئوں پھر چودنا مجھے اور ہاں بادام کھا لے میرے راجہ میری پھدی کو تیز تیز چودنا مامی مجھے چمی دے کر واش روم گئی اور پانچ منٹ بعد واپس ائی میں بہت خوش تھا کے مامی بھی مجھ سے خوش ہو گئی ھیں اب ان کی پھدی کو خوش کرنے کی باری تھی. مامی واش روم سے آئی تو مجھے کہا کے تم بھی ہو آئو میں بھی واش روم گیا لن کو دھویا اور پھر کمرے مے واپس آ گیا .. مامی بیڈ پر بیٹھ کر میرا انتظار کر رہی تھی کے کب میں نکلوں اور مامی میرے لن کو اپنی پھدی مے لے کر اپنی پھدی کو مزہ دے سکے.میں باہر آیا تو مامی نے کہا کے میرے اوپر مت لیٹنا میں نے کہا مامی کیوں مامی نے کہا کے تمہارا وزن بہت ہے میں نے مامی کو کہا کے پھر لن کیسے اپنی پھدی مے لو گئی مامی نے کہا کے لے لوں گی پریشان مت ہو میرے چودو راجہ میں نے کہا ٹھیک ہے مامی جی پھر مامی میرے اوپر ا گئی اور اپنے ممے میرے منہ سے ڈالنے لگ گئی ساتھ ساتھ میرے بالوں کو سہلانے لگ گئی میرے لن نے پھر سے مامی کی پھدی کو سلامی دینا شروع کر دی تھی میرا لن مامی کے ممو کو منہ سے ڈالنے سے فاٹا فٹ کھڑا ہو گیا تھامامی کے مموں مے ایسا کیا جادو تھا جو میرے لن کو پھر سے کھڑا کرنے پر مجبور کر رہا تھا.. مامی اپنے ممے چوسوانے میں مدہوش ہو رہی تھی ساتھ ساتھ میرے بالوں مے ہاتھ ڈال کر مجھے مزہ دے رہی تھی میں کبھی مامی کے ممو کو چوستا کبھی نپپلز کو دندی کٹتا مامی کے مہ سے لذت آمیز الفاظ نکل رہے تھے مامی پاگل ہو رہی تھی پھر مامی نے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اتنا پاگلوں کی طرح چوسا میرا ہونٹوں کو کے میرے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا جو کے مامی کے پیارکی انتہا تھا. پاگل پن کی انتہا تھی.دو گرم جوانیاں دو دھکتے جسم اف کمرہ بھی ہمارے پیار کی وجہ سے گرم ہو رہا تھااتنا مزہ اف مامی بھی پاگل تھی اور میں بھی پاگل ہو رہا تھا. مامی نے میرے ہونٹوں سے نکلے خون کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کر دیا مجھے مامی کوئی چداکڑ لگ رہی تھی جس کو پھدی دینے کا لن کو چوسنے کا ہونٹوں کو چوسنے کا فن آتا تھا.مامی میرے نیچلے ہونٹ چوس رہی تھی اور میں اوپر والے لذت آمیز مزہ ا رہا اف کیا مزہ تھا مامی کے گلابھی پھول کی پنکریوں جیسے نرم ملائم ہونٹ میرے ہونٹ سے چھو رہے تھے. مامی کے ہونٹ کسی تندور کی ماند تھے جو میرے لن کو مجبور کر رہے تھے کے میں مامی کے منہ مے اپنا لن دلوں بھی میں سوچ رہا تھا کے مامی نیچے میرے پیٹ پر آ گئی اور چمی کر کے میرے لن کو پکڑ لیا اس کو چوسنا شروع کر دیا اف اہ نکل گئی مامی نے میرے مزے کو جانتے ھوے میرے لن کو مہ مے ڈال کر چوسنا شروع کر دیا.کبھی لن کی ٹوپی کو چوسنا شروع کر دیا اف کبھی لن کی ٹوپی کو چوستی کبھی پورا کبھی پورا لن چوستی کبھی ٹٹے چوستی میرا بس نہیں چل رہا تھا کے مامی کی پھدی کو ابھی پھاڑ دوں لکین میں اپنے آپ کو ترسا کے اور مامی کو ترسا کے پھدی مے لن دلانا چاہتا تھامیری ممی ایک نمبر کی رنڈی لگ رہی تھی اس کے لن چوسنے کا طریقہ اف کیا بتاں میرا لن فل گرم تھا ممی جب ٹٹوں کو چوستی تو میری چھاتی پر ہاتھ پھرتی میں ہوائوں مے اڑ رہا تھا۔میری مامی ایک نمبر کی رنڈی لگ رہی تھی اس کے لن کو چوسنے کا طریقہ ٹٹوں کو چوسنے کا طریقہ میرے پورے جسم کو چومنے چاٹنے کا طریقہ اف میرے انگ انگ سے گرمی اٹھ رہی تھی. میرا لن مامی کی پھدی مے جانا چاہتا تھا لکین مے ابھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا میں مامی کے مہ سے سنانا چاہتا تھا کے میری پھدی کو پھاڑ دے مامی نے ابھی تک میرے لن کو پنے منہ مے رکھا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ میرے بالوں مے ہاتھ پھیررہی تھی میرے لن کا مزے کی وجہ سے حشر نشر ہو رہا تھا مامی کے ہونٹوں کی گرمی میرے لن کو اور مجھے پاگل کر رہی تھی... مامی کسی رنڈی کی طرح میرے لن کو چوس رہی تھی پھر مامی نے کہا کے میرے راجہ میری پھدی کا بینڈ بجا جا...مامی نیچے ا گئی تھی اور میں مامی کے اوپر تھا. پھر میں مامی کے پائوں کو چومتا ہوا ٹانگوں کے اوپر آ گیا تھا ٹانگوں کو چومتا ہوا چاہتا ہوا پھدی تک ا گیا مامی کی پھدی گیلی ہی تھی مامی کی پھدی فل گرم تھی میری زبان کے اندر جانے کی دیر تھی مامی کے منہ سے سسکاریاں نکلنا شروع ہو گئی تھی اف اہ تیز تیز چودو نہ مجھے جانو اف کیا جادو ہے تمہاری زبان کا تیز تیز آہ پھر مامی نے میرا ہاتھ کو اپنے مموں پر رکھوایا مامی کے ممے میرے ہاتوں مے نہیں ا رہے تھے. میں نے مامی کی فوڈ کے اندر فل زبان ڈالی ہی تھی مامی کی سسکاریاں تیز سے تیز ہو رہی تھی مامی کی پھدی سے گرمی نکل رہی تھی اف مامی کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا اور مامی نے اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھ دِیے اور میرے سر کو اپنی پھدی کے اندر تک لے کر جانا چاہتی تھی میری حالت بھی غیر ہو رہی تھی مامی کی پھدی کے پھٹنے کی باری تھی مامی نے تڑپتے ھوے لہجے میں کہا کے اب لن بھی ڈال دو. پھر میں نے مامی کی پھدی پر اپنا لن ٹکا کر پھدی مے لن ڈالنا چاہا لکین مامی نے کہا روک جامامی کیا ہوا ہے مامی درد نہ ہومامی نہیں ہو گامامی نے کہا اچھا آرام آرام سے چودنا...پھر میں نے مامی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے پھر مامی کے ممے میری چھاتی سے لگ رہے تھے میں نے مامی کی پھدی پر لن کو سیٹ کیا اور آرام آرام سے پھدی کے اندر ڈالنا شروع ہوا میرا لن دو انچ تک پھدی مے گیا ہو گا مامی کے مہ سے اہ نکلی آرام ارم سے مرے راجہ اف مزا اگیا اف لن ہے یاں کوئی گرم سیخ ہے آرام سے پھاڑنا میری پھدی مامی ٹھیک ہے پھر میرا لن اندر نہیں جا رہا تھا ایک جگہ ایسی ای میرا لن اس کے آگے نہیں جا رہا تھا میں نے مامی کے مموں کو پکڑا پھر ہونٹو پر ہونٹ رکھے اور لن کو تھوڑا پیچھے نکال کر پھدی مے ایک جھٹکے سے اندر لن ڈالا دیا مامی کے ان سے چینخ نکلی اور میرے منہ مے دب کر رہ گئی تھی ممی بنا مچھلی کے تڑپ رہی تھی مجھے مامی کی اس حالت پر رحم آ رہا تھا میں نے لن کو بھر نکالا تو مامی نے کہا کے باہر نہ نکالو میں نے کہا مامی یہ ٹھیک نہیں ہے مامی نے کہا کے ٹھیک ہے مجھے بھی پتا ہے کے یہ ٹھیک نہیں ہے لکین مامو کی عزت کا خیال رکھو میں نے اس وقت لن کو اندر ڈال دیا ایک جھٹکے سے لن اندر جانے کی وجہ سے مامی کے منہ سے پھر سے چیخ نکل آئی لکین اتنی زور سے نہیں نکل رہی مامی نے کہا اس بات کو سمجھو میں اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتی اس لئے تمہارے مامو کی بات کو من کر تم سے چودوانے کو تیار ہو گئی تھی یہ بات پھر بتائوں گئی پھرپھدی پھاڑ دی ہے اس کی گرمی کو ٹھنڈا کرو میں نے نہ چاھتے ھوے گھر کی عزت اور مامو کی عزت کی وجہ سے مامی کی پھدی کو چودنا شروع کر دیا میرے ایک جھٹکے نے ممی کی جان نکل دی تھی میں نے لن کو اندر رکھا ہوا تھا میں لن کو آگے پیچھے نہیں کر رہا تھا مجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا تھامامی نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے اوپر رکھے اور میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا میں بھی انسان تھا کب تک روکتا میرا لن بھی تھا میں مامو کی طرح نہیں تھا میں مامی کے ہونٹوں کو پاگلوں کی طرح چوسنے لگ گیا میں نے سب باتوں کو بھلا دیا تھا اور میں مامی کی گرم گرم پھدی کو اور اپنے لن کو مزہ دینا چاہتا تھامیں نے لن کو آگے پیچھے ڈالنا شروع کر دیا تھا مامی میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی میں مامی کا ساتھ دے رہا تھا مامی میرا ساتھ دے رہی تھی میں نے مامی کے مموں کو پکڑا ہوا تھا میں مامی کے ممے دبا رہا تھا مامی سے میرا وزن برداشت نہیں ہو رہا تھا میں مامی کے مموں کو پکڑ کر ان کو چود رہا تھا اس لئے مامی میرا وژن برداشت نہیں کرپا رہی میں نے اپنے ہونٹ مامی کے ہونٹوں کے ساتھ دوبارہ ملا دِیے اور مامی کو چودنا شروع ہو گیا پھر میں نے مامی کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے اور بیڈ پر ہاتھ رکھ کر مامی کو چودنا شروع کر دیامامی کے منہ سے عجیب عجیب آوازیں ا رہی تھی مامی کی پھدی فل گیلی ہوئی ہوئی تھی مامی کے منہ سے آہ میرے راجہ ایسے چودو آہ اف مزہ آ رہا ہے تیز تیز نہ کرو آرام آرام سے کرو اف لورا پورا ڈالو میری پھدی مے اف مزہ ا گیا جان میری ایسے چودو میرے راجہ جو کہو گے کیا کروں گئی مامی آپ نے سب کہا خیال رکھنے کو کیوں کہا مجھے اچھا نہیں لگا مامی نے کہا کے وہ تو گھر والوں کو اور نانی کو دکھانے کے لئے کہا تھا اب تم میرے خاوند ہو مجھے چودو اہاف اف اف اف اف اہ آہ اہ آہ مزہ ا رہا ہے اب تیز تیز چودو مجھے اف کیا لورا ہے تمہارا میری پھدی کو ایسا لورا چاہیے تھا میری گرم نرم پھدی تمہارے لن کی دیوانی ہو گئی ہے....اف اہ اف مزہ دے رہے ہو میرے راجہ پھر میں نہ لن کو نکالا موبائل کی لائٹ کو جلا کر مامی کی پھدی کو صاف کیا بیڈ کی چادر پر مامی کی پھدی کا خون لگا ہوا تھا مامی کی ٹانگوں پر بھی اور مامی کی پھدی پر بھی مامی کی پھدی کا خون اس چیز کی گواہی دے رہا تھا کے مامی کی پھدی نے کبھی لورا نہیں لیا ہوا مامی کی پھدی میرے گرم لورے سے پھٹی تھی چادرپر عشق پے تازہ لہو کے چھینٹے ہیں.حدودے عشق آگے نکل گیا ہے کوئی پھر مامی اور میں واش روم اکھٹے گے مامی کی پھدی کو پانی سے صاف کرنا چاہا پر مامی نے کہا کے جلن ہو رہی ہے میں نے کپڑے پر پانی لگا کر پھدی کو صاف کیا پھر بھی جلن ہو رہی تھی لکین میں نے مامی کو کہا کے کچھ نہیں ہو گا پھر اپنے لن کو صاف کیابیڈ پر واپس ا کر مامی میرے اوپر لیٹ گئی....مامی نے میرے ہونٹوں کو پھر سے چوسنا شروع کر دیا تھا میرا لن جو تھوڑا سا بیٹھ چکا تھا مامی کی چمیوں کے ساتھ اور میرے ہونٹوں کو چوسنے کی وجہ سے دوبارہ کھڑا ہونے لگا پڑا تھامامی کے ہونٹوں مے کیا جادو تھا جو میرے لن کو بیٹھنے نہیں دے رہا تھاپھر مامی نے میری چھاتی پر چمیاں کرنا شروع کر دیا تھی مامی چمیاں کرتے کرتے میری ٹانگوں پر آ گئی میرے لن کو منہ مے لے کر کلفی کی طرح چوسنا شروع کر دیا تھا پھر میرے ٹٹوں کو چوسنا شروع کر دیا پھر میری ٹانگوں کو چومتے چومتے میرے پائوں پر آگئی میری پائوں کی ایک ایک انگلی کو چوسا چوما پھر مجھ الٹا ہونے کو کہا میں نے کہا مامی الٹا کیوں ہو جاں مامی نے ہنستے ھوے کہا میں پٹھان نہیں ہوںمیں نے ہلکی سے مسکراہٹ دی اور الٹا ہو گیامامی نے میری ریڑھ کی ہڈی کو چومنا شروع کر دیا پھر میری ہپس کو چومنا شروع کر دیا پھر مجھے کہا کے اب مجھے چودو گے میں نے کہا جسے میری جان شازیہ کہے گئی مامی نے کہا کے مجھے مزہ ا رہا ہے میں چاہتی ہوں کے میں تیرے لن کی سواری کروں میں نے کہا جیسے میری جان خوش مامی میرے لن پر بیٹھ گئی تھی مامی نے آرام آرام سے لن کو اندر لینا شروع کر دیا مامی سے پورا لن نہیں لیا جا رہا تھا کیوں کے مامی رنڈی نہیں تھی بیشک ہو لوں کو رنڈیوں کی طرح چوس رہی تھی لکین پھدی مامی کی کنواری تھی اس کا ثبوت چادر پر لگا خون تھا مامی رک گئی میرے ہونٹوں کو چوما میرے ماتھے کو چوما پھر اپنے ممے مجھ پکڑا دِیے مامی کے چٹے جسم پر چھتیس سائز کے ممے بہت اچھے لگ رہے تھے مامی کے نیپلز کو میں نے اپنے انگوٹھے اور ایک انگلی سے رگڑنا شروع کر دیامامی کے منہ سے سسکاریاں تیز تیز ہو گئی مامی نے مزے مزے مے میرے لن کو پورا اپنی پھدی کے اندر لے لیا تھا اور میرے لن کو پورا اندر لے کر پورا باہر نکال رہی تھی مامی کی پھدی نے کبھی لن نہیں لیا تھا پھر بھی مامی کی پھدی لن کے لئے ترس رہی تھی مامی میرے لن پر پانچ منٹ تک چھلانگے لگاتی رہی میرے لن کو اپنی بچے دانی کے ساتھ ٹکراتی رہی اور میرے لن کو پورا اپنی پھدی کے اندرلیا پھر مامی نے میرے ہونٹوں کو دوبارہ چومنا شروع کر دیا تھا۔ میرے ہونٹوں سے کھیلتی رہی میں مامی کے ہونٹوں کے ساتھ کھیلتا رہامامی نے ایک دم پورا لن پھدی کے اندر سے نکالا اور ایک دم سے پورا لن پھدی کے اندر لے لیا اور اپنی بچے دانی کے ساتھ لن کو ٹکرایا.... مامی کے منہ  سے نکلنے والی چیخ میرے منہ مے ہی دب گئی تھی مامی نے بہت مشکل سے درد کو برداشت کیا تھا. اتنی درد مامی کو تب نہیں ہوئی تھی جب ان کی سیل ٹوٹی تھی جتنی درد مامی کو خود سے میرا لن ایک جھٹکے مے اپنی پھدی مے لینے سے ہوئی تھی مامی کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے مامی کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی مامی نے میرے ہونٹوں کو اتنی درد ہونے کے باوجود نہیں چھوڑا تھا وہ مزے سے میرے ہونٹوں کو کلفی کی طرح چوس رہی تھی ان کو چاٹ رہی تھی پھر مامی نے کہا میں تیرے لن کی سواری کر کر کے تھک گئی ہوں لکین تیرے تگڑے لمبے گھوڑے کو کوئی فرق نہیں پڑا ... کیا کھلایا ہے اس گھوڑے کو میں نے کہا مامی ایک دفع اپ کے منہ مے میری منی نکلی تھی اور میں نے بادام بھی کھائے ہیں اس لئے میرا گھوڑا تھکا نہیں ہے مامی نے کہا چل بدمعاش میری پھدی کو اپنے لن کے پانی سے سہراب کر دے میری جان جلدی چود مجھے مامی نے کہا اب میری ٹانگیں کھول کر میری پھدی کو اور پھاڑ دے میری پھدی مے لگی آگ کو اپنے گرم راڈ کے ساتھ ٹھنڈا کر دے جیسے میری جان کہے گئی ویسے ہو گا پھر میں نے مامی کی ٹانگیں کھول کر اپنے کندے پر رکھی اور پھر لن کو آرام آرام سے مامی کی پھدی کی گہری میں ڈالنا شروع کیا مامی کی آوازیں نکل رہی تھی میرے راجہ پھدی کو پھدی سمجھ کر چود نہ کے کوئی گھڑھ سمجھ کر چودمامی کی ایسی کھول کر بات کرنے سے میرے لن میں جان ا جاتی میرا لن مامی کی پھدی کے اندر رہ کر ان کی پھدی کو سلامی دیتا تھا میں لن کو فل اندر ڈال کر لن کو سخت کر لیتا تھا... مامی کی منہ سے سسکاری نکلتی مجھے بہت مزہ ا رہا تھا مامی کو بھی مزہ ا رہا تھا پھر میں مے لن کو باہر نکل کر مامی کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا مامی نے میرے بالوں مے ہاتھ ڈال کر میرے سر کو کس کر پکڑ لیا تھا اور میرے سر کو اپنی پھدی کے اندر لے کر جانا چاہتی تھی لکین جو لن کام کر سکتا ہے وہ زبان نہیں لکین میں مامی کے انگ انگ مے آگ لگانا چاہتا تھا اور اس کو خود اپنے لن سے ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا...پھر میں نے مامی کے مموں مے اپنا لن ڈال کر آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا مامی میرے لن کو ساتھ ساتھ چمیاں کرتی اپنے منہ مے لیتی تھی میں پاگل ہو رہا تھا مامی کے منہ سے بھی گرمی کی سانسیں نکل رہی تھی جو کے میرے لن پر پڑتی تو میرا لن سخت ہو جاتا..میں مے مامی کی ٹانگیں اپنے کندے پر رکھ کر پھر سے مامی کی پھدی مے لن ڈالا اور مامی کو تیز تیز چودنا شروع کر دیا مامی میرے اس طرح کے رویے سے بے خبر تھی مامی کی پھدی مے میں مے اپنا چپو روانی کے ساتھ چلانا شروع کر دیا تھا مامی کی درد بھری آواز مجھے پاگل کر رہی تھی.،،، اف جان آرام سے چودو میں کہیں بھاگ نہیں جاں گی تمہاری ہوں آج سے اور تمہاری رہوں گی لکین آرام سے چودو جانو آہ اف اف اف اوچ آرام سے جانو جانو آرام سے اف اہمیں اپنے چپو کو تیز تیز مامی کی پھدی مے ڈال رہا تھا اور اندر باہر کر رہامیں نے مامی کو کہا کے میرے لن کا مادہ نکلنے والا ہے کہاں نکالوں آپ کے منہ مے آپ کے مموں مے آپ کی پھدی میںمامی نہ کہا پھدی مے لیکن دو منٹ روکو آرام آرام سے چودو میرا پانی بھی نکلنے والا ہے اف اہ مامی بھی اف اف اہ کر رہی تھی میں بھی اف اہ مامی کی پھدی کی پچک پچک کی آوازوں سے کمرہ گھونج رہا تھا پھر میں نے آرام آرام سے اپنا جہاز مامی کی پھدی مے اڑانا شروع کر دیا تھا...مامی کی پھدی کو میں پانچ منٹ تک مزید چودتا رہاپھر مامی نے کہا تیز تیز چود مجھ میرا پا پا پانی نکلنے وا والا ہے اف تیز تیز جان میری تیز تیز تیز اور تیز چودمیں بھی مامی بھی اف آہ آہ کر رہے تھے میاں نے مامی کی ٹانگیں نیچے کیں اور مامی کی پھدی مے لن ڈال کر مامی کے مموں کے ساتھ سینا لگا کر مامی کے ہونٹوں کو چوس کر پھدی مے اندر لن کو ڈالا دیا میرا لن پانی چھوڑ چکا تھا میں پھر بھی لن کو اندر باہر کر رہا تھاپھر مامی نے اپنے ناخن میری کمر مے گھاڑ دے اور اپنی ٹانگوں سے میری ہپ کے ساتھ کس کر پکڑ لیا تھا اور میرے ہونٹو کو خود سے چوسنا شروع کر دیامیرے لن کے پانی نے مامی کی پھدی سہراب کر دیا تھا مامی کی پھدی کے پانی نے بھی میرے لن کو سہراب کر دیا تھامیں تھک کر مامی کے اوپر در پڑا تھا مامی ابھی تک میرے ہونٹو کو چوس رہی تھی پھر میں نے لن کو باہر نکالا مامی نے اپنی پھدی اسی چادر کے ساتھ صاف کی جس پر اس کی پھدی کا خون لگا ہوا تھاپھر میرے لن کو اپنے منہ مے ڈال کر صاف کیامیں اور مامی اکھٹے نہائے اور فل چومیاں کی رومانس کیا اور پھر میں نے کپڑے پہنے اور مامی نے مجھے کس کی میں مامو کو بلانے دوسرے کمرے مے گیا تو مامو خوش رہے مامو نے کہا کے اب جب اگلی بار چودو گے تو شرما مت میں نے مامو کہا ٹھیک ہے نہیں شرماتا مامو مجھ سے خوش ھوے پھر مامی کو جاتی دفع میں نے کہا کے کل کہاں چدائی کرائو گی مجھ سے مامی نے کہا اب صبر کرنا ایک ہفتہ میں نے کہا آپ کر لو گئی مامی نے کہا نہیں لکین کرنا پڑے گا پھر مامو کے سامنے مامی نے مجھے چمی دی میں پہلے شرمایا پھر مامو کی بات ذھن میں ا گئی پھر میں نے بھی مامی کو چمی دی ساتھ ساتھ مموں کو بھی دبایاپھر مامو نے باہر کا جائزہ لیا اور مجھے باہر بھیج دیا اور میں اپنے کمرے میں ا گیا تھامجھے نیند نہیں ا رہی تھی میں سوچ رہا تھا مامی کو مزہ آیا کے نہیں کے اچانک مامو کا فون آیا میں نے ایس ام ایس کیا جی مامو مامو نے کہا فون اٹھو پھر مامو نے فون کیا تو اٹھے جی مامومامو کے کچھ لگتے پھدی کو مزہ دیا ہے میں بوتھ خوش ہوں مامی کی آواز سن کر اور یہ بات سن کر مجھے خوشی ہے میں نے کہا ٹھیک ہے اب اپ سو جو پھر مزے ہی مزے کرنے ہیںمامی نے کہا ٹھیک ہے میری جان ایک ہفتہ بس پھر موجیں ہی موجیں میں کہا ٹھیک ہے مامی نے مجھ چمی دی میں نے بھی دی اور فون بند ہو گیاپھر مجھے سکون کی نیند ا گئی کیسی لگی میری کہانی مزہ آیا کے نہیں کومنٹ مجھے بتایں گے کے کیسی لگی یہ کہانی مجھے لکھنا نہیں آتا اس لئے غلطی کوتاہی معاف کرنا..
  • شکریہ
  • اپنی کہانیاں ،آبیتیاں اور آراء adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔



Saturday 23 June 2012

Wife of a Officer


ں ایک شریف لڑکا تھا اور سیکس کی الف ب بھی نہیں جانتا تھا . ایک واقعہ نے میری زندگی بدل دی اور میں سیکس سے واقف ھو گیا- ہوا کچھ یوں کہ میری سم گم ھو گئی اور وہ ایک لڑکے کو ملی جس نے وہ سم اپنی ایک گرل فرینڈ کو دے دی اور پھر یہاں سے میری سیکس لائف کا آغاز ہوا : بعد میں، میں نے بہت ساری لڑکیوں سے سیکس کیا. ان میں سے ایک بہت بڑے افسر کی بیوی بھی تھی آج کی سٹوری اس سے متعلقہ ہے کہ اس سے کب اور کہاں اور کیسے سیکس کیا .ایک دن میں اپنے دوست کے پاس گیا اور وہاں بیٹھااس سے گپ شپ لگا رہے تھا باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ میرے پاس ایک لڑکی کا نمبر ہے اس کی آواز بہت پیاری ہے لیکن وہ بہت غصے والی ہے اس سے سیٹنگ نہیں ھو رہی ہے.اس نے وہ نمبر مجھے بھی دے دیاوہ نمبر ptclکا تھا .اگلے دن میں نے اس نمبر پر کال کی تو آگے سے کسی لڑکی نے فون اٹینڈ کیا اور کہا ھیلو :اس کی آواز بہت پیاری تھی میں نے کہا جی مجھے علی سے بات کرنی ھے تو اس نے کہا کہ یہاں کوئی علی نہیں رہتااتنا کہہ کر وہ خاموش ھو گئی اب میرے پاس فون بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا لیکن میں نے فون بند نہ کیا اور خاموش ھو گیا اس نے رسیور رکھا نہ ہی میں نے فون کٹ کیا ایسے ہی کال چلتی رہی اور دنوں طرف سے خاموشی ، میرا بیلنس ختم ہوا تو کال خود بخود کٹ گئی ، آواز سننے کے بعد میں نے سوچ لیا تھا کہ اس سے ضرور دوستی کرنی ھے کیونکہ جس کی آواز اتنی پیاری ہے وہ خود کتنی سندر ھو گئی ، اگلے دن میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس سے کیسے بات کروں تو اک انجان نمبر سے کال آئی میں نے کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف وہی لڑکی تھی جس سے رات بات ہوئی تھی لیکن مجھے پتا نہیں چلا کہ یہ رات والی لڑکی ہے ، اس نے مجھ سے پوچھا کون ؟ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے کس سے بات کرنی ہے ؟ اس نے کہا کہ رات اس نمبر پر آپ نے کال کی تھی ؟ تو میں نے کہا جی میں نے ہی کال کی تھی . اب مجھے اندازہ ھو گیا تھا کہ یہ کون ہے میں نے پوچھا کیا آپ کو برا لگا ؟ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کال کٹ کر دی. میں نے کال بیک کی تو اس نے نمبر مصروف(busy)کر دیا .میں نے میسج کیا.پلیز کال اٹینڈ کرو ،تو اس نے رپلائی کیا . کیوں کیا بات ھے ؟ میں نے لکھا کہ آپ کی آواز بہت پیاری ہے ، کیا آپ مجھ سے دوستی کرو گی ؟ 
لوڈ ہونے کے بعد میں نے اسے کال کی تو اس نے اٹینڈ نہ کی اور میسج بھیجا کہ میں اس وقت مصروف ھوں بعد میں بات ھو گی - میں نے دل میں سوچا کہ دیکھو پانچ سو ضائع ہوتے ہیں یا پھر ایک خوبصورت آواز سے آشنائی کا ذریعہ بنتے ہیں . میں اس کی کال یا میسج کا انتظار کرنے لگا شام کے وقت اس نے میرے موبائل پر پانچ سو کا بیلنس لوڈ کروا دیا . مجھے جیسے ہی بیلنس ملا میں نے اسے کال کی اور پوچھا کہ آپ نے مجھے بیلنس واپس کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے میں کوئی لالچی عورت نہیں ھوں تو میں نے پوچھا پھر مجھ سے لوڈ کیوں منگوایا تھا ؟ اس نے کہا کہ جب بھی کوئی رانگ نمبر تنگ کرتا ہے تو میں اسے بیلنس کا کہہ دیتی ھوں پھر وہ دوبارہ کال نہیں کرتا اس طرح میری جان چھوٹ جاتی ہییہ سب وقت گزاری کے لئے لڑکیوں کو فون کرتے ہیں جب انہیں بیلنس کا کہا جاتا ہے بھاگ جاتے ہیں آپ سے اس لئے بات کر رہی ھوں کہ آپ سچ میں مجھ سے دوستی کرنا چاہتے ہیں . میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا کہ میں آپ سے سچ میں دوستی کرنا چاہتا ھوں ؟ تو اس نے کہا جو سچ میں دوستی کرنا چاہتے ہیں وہ بیلنس کروا دیتے ہیں جیسا کہ آپ نے کروا دیا ہے. میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے ؟اس نے کہا میرا نام امبر ہے میں نے کہا بہت ہی پیارا نام ہے امبر-اس نے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے ؟ 
میں نے کہا کہ میرا نام عرفان ہے اور میں ساہیوال میں رہتا ھوں ، آپ کہاں رہتی ھو ؟ تو اس نے کہا کہ میں اوکاڑہ سٹی میں رہتی ھوں میں نے کہا اپنے بارے میں کچھ بتا ؟ اس نے کہا کہ میں شادی شدہ ھوں میرا ایک بیٹا ہے اور میرے میاں گورنمنٹ کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ سترہ کے افسر ہیں- آپ کیا کرتے ہیں ؟میں نے کہا کہ میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ میں جاب کرتا ھوں اس نے کہا میری عمر چھبیس سال ہے اور آپ کی ؟ میں نے کہا میری عمر انتیس سال ہیاس نے کہا بعد میں بات کریں گے.ہاں ایک بات یاد رکھنا کہ خود سے کبھی فون نہیں کرنا جب میرے شوہر پاس نہ ھوں گے تو میں آپ کو بتا دیا کروں گی -
چند دن اسی طرح عام روٹین کی باتیں ہوئیں وہ اور میں شاید سیکس کی باتوں کی طرف آنے سے شرما رہے تھے اور ایک دوسرے کی طرف سے پہل کے منتظر تھے. عام طور پر پیار محبت کے معاملات میں عورتیں اظہار نہیں کرتیں یہ فریضہ بھی مرر کو ہی سرانجام دینا پڑتا ہے جو بھی عورت کسی انجان مرر سے بات کرنے پر آمادہ ھو جائے تو سمجھ لو کہ وہ ذہنی طور پر اسی (80) فیصد سیکس کے لئے تیار ہوتی ہے اب یہ مرر پر منحصر ہوتا ہے کہ باقی بیس فیصد عورت کو کیسے راضی کرتا ہے ۔ پہل میں نے ہی کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک دن گیارہ بجے کے قریب اسے میسج کیا کہ کیا ھو رہا ہے تو اس کا رپلائی آیا کہ بس فارغ ہی ھوں تو میں نے اسے کال لگائی .امبر نے کال اٹینڈ کی اور پوچھنے لگی کہ عرفان کیسے ھو ؟میں نے جواب دیا میں ٹھیک ھوں آپ سنا کیسی ھو ؟امبر نے کہا میں بھی ٹھیک ھوں اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا کر رہے ھو ؟میں نے کہا کہ آپ کی یاد آ رہی تھی آپ کو بہت مس کر رہا تھا اس لئے آپ کو کال کر لی، او ھو ! آپ کو ہماری یاد آ رہی تھی آپ کو کب سے ہماری یاد آنا شروع ھو گئی جناب؟عورت کے حسن کی تعریف اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے،اس لئے اس ہتھیار کا استمال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ کی آواز بہت پیاری ہے جب آپ بولتی ہیں تو پتا نہیں کیوں میرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو جاتی ہیں؟آج کل تو ذھن میں آپ ہی ہوتی ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ہی کو سوچتا ھوں،آپ جیسی خوبصورت لڑکی سے دوستی میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں- امبر ہنستے ہوئے عرفان کوئی مسکہ لگانا تو آپ سے سیکھے.میںنے ذرا سا جذباتی ھو کر امبر سے کہا میرے دل کی آواز کو تم مسکہ کہہ رہی ھو امبر میں نے تم کو دیکھانہیں لیکن پھر بھی آپ کی چاہت میرے دل میں گھرکر گئی ھے اور آج کل میں تمہیں ہی سوچتا رہتا ھوں امبر تم بہت پیاری ھو. کیا تم بھی مجھے اتنا ہی مس کرتی ھو ؟ امبر نے کہا عرفان تم بہت اچھے ھو لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ میں شادی شدہ ھوں اور بال بچے والی ھوں تم خود پر کنٹرول رکھو کہیں ایسا ہی نہ ھو کہ آپ کی وجہ سے میری ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ھو جائیں، میں نے کہا کہ امبر تم اتنے دنوں سے مجھ سے بات کر رہی ھو اور ابھی تمہیں میرا پتا ہی نہیں چلا کہ میں کیسا لڑکا ھوں یہ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں آپ کو تنگ کروں گا آپ کی یہ بات سن کر مجھے بہت دکھ پہنچا ہے، یہ کہہ کر میں نے فون کٹ کر دیا فون بند کرنا تو صرف ایک بہانہ تھا کہ دیکھوں اسے میری پروا بھی ہے یا نہیں ؟ اسی وقت اس نے کال بیک کی میں نے فون اٹینڈ کیا تو امبر کہنے لگی کہ عرفان تم تو ناراض ھو گئے ھو میں نے تو ایسے ہی ایک بات کی تھی آپ سے -میں آپ سے سوری کرتی ھوں اگر آپ کو برا لگا میں نے کہا اپنوں میں سوری نہیں چلتا سوری کہہ کر تم نے مجھے بیگانوں میں شامل کر دیا ہے امبر نے کہا عرفان تم تو میری جان ھو تم کو اپنا سمجھا ہے تو تم سے بات کر رہی ھوں میں نے کہاسچ امبر نے کہا مچ میں نے کہا اس خوشی میں ایک کس kiss ھو جائے اور میں نے فون پر اسے چومنے کی آواز نکالی تو اس نے بھی جوابا مجھے چومنے کی آواز نکالی اور کہا شکر ہے کہ آپ کی آواز میں پہلے جیسا میٹھا پن آیا اس خوشی میں جو بھی فرمائش کرو گے وہ میں پوری کروں گی میں نے کہا کہ کیا میں جو مرضی فرمائش کروں وہ تم پورا کرو گی ؟ امبر نے کہا ہاں میں پورا کروں گی ، میں نے کہا کہ میں تمہیں اپنے سامنے بیٹھا کر تمہیں دیکھنا چاہتا ھوں اس نے کہا عرفان میں نے تم سے وعدہ کیا ہے تو میں اسے ضرور پورا کروں گی لیکن تمہیں اس کے لئے تقریبا ایک ماہ انتظار کرنا پڑے گا میں نے پوچھا کیا مطلب ؟ تو اس نے کہا کہ میرے شوہر نے پندرہ دن کے لئے دفتری کام کے سلسلے میں بیرون ملک جانا ہے اس دوران میں آپ کی فرمائش پوری کر سکوں گی ، میں نے کہا وعدہ ؟ تو امبر نے کہا پکا وعدہ ، میں نے کہا کہ کیا ایسا نہیں ھو سکتا کہ میں آپ کو کہیں دیکھ سکوں ؟ تو امبر نے کہا اب میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے ملنے کا تو تم ایک ماہ صبر کرو . 
میں نے کہا کہ وہ تو مجھے کرنا ہی پڑے گا ویسے بھی انتظار کا اپنا علیحدہ ہی مزا ہے  اس دن میں نے فون پر اس کی کس KISS کی اور ملنے پر رضامند کر لیا تھا اور تھوڑی بہت جو جھجک تھی وہ بھی تقریبا ختم ھو گئی تھی اس دن میں بہت خوش تھا کیونکہ میں اپنے ہدف کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اب اس سے تقریبا روز ہی بات ہوتی تھی سوائے اتوار کے -اب تو میں باتوں باتوں میں فون پر اس کی کس بھی کر لیتا تھا لیکن اس سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے میری ہوس ظاہر ھو میں کبھی کبھی اس سے زد کرتا تھا کہ میں تمہیں ملنے سے پہلے ایک دفعہ دیکھنا چاہتا ھوں تو وہ کہہ دیتی تھی کہ جیسے ہی کوئی موقع آیا تو میں آپ کو بتا دوں گی 
میں نے کہا کہ میں ضرور آں گا اس نے مجھے اپنی کار کا نمبر اور رنگ بتا دیا اور گھر سے نکلنے کا وقت بھی بتا دیا اور کہا کہ میں اس وقت فون نہیں کر سکوں گی آپ تھوڑا انتظار کر لینا اگر کرنا پڑے  ۔میں بہت خوش ہوا کہ اتنے عرصے کے بعد پہلی دفعہ اسے دیکھنے کا موقع ملا ہے . میں تیار ھو کر وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ پہلے اوکاڑہ پہنچ گیا اس وقت میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ھو رہی تھی اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور مجھے انجانی سی بے چینی محسوس ھو رہی تھی میں سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں کہ وہ کیسی ھو گی جلدی میں اس نے اپنا تو بتا دیا تھا لیکن وہ مجھ سے نہیں پوچھ سکی تھی کہ وہ مجھے کیسے پہچانے گی لیکن میں نے اس کا حل سوچ لیا تھا 
جو وقت اس نے بتایا تھا وہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک وہ پہنچی نہیں تھی جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میری بے چینی میں اضافہ ھو رہا تھا اور انتظار کا بڑھتا ہوا ایک ایک لمحہ میرے دل کی دھڑکنوں اور میری بے چینی کو بڑھا رہا تھا کہ اچانک پھرمیرے سامنے دوکان پر ایک کلٹس کار آ کر رکی اس کا رنگ امبر کے بتائے ہوئے رنگ سے ملتا تھا اس کی ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ ایک لڑکی ایک بچے کے ساتھ بیٹھی تھی مرر اتر کر دوکان میں داخل ہوا ،کار کا نمبر مجھے نظر نہیں آ رہا تھا میں نے تھوڑا آگے جا کر کار کا نمبر دیکھا تو وہ وہی نمبر تھا ایک دم میرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو گئیں اور اکسائٹمنٹ کی وجہ سے میرے جسم میں ہلکی سی لرزش آ گئی ، 
امبر بہت ہی حسین تھی اس کا رنگ دودھیا سفید اور اس کے نین نقش تیکھے اور بہت دلکش تھے اس کے چہرے کا حسن اس کی نشیلی آنکھیں تھیں . اس کا چہرہ گول اور گال پھولے پھولے سے تھے وہ نہ ہی بہت سمارٹ اور نہ ہی بہت موٹی تھی وہ درمیانے جسم کی ایک خوبصورت لڑکی تھی میں خود ٹھیک ہی ھوں لیکن میری یہ ہمیشہ سے ہی خوش قسمتی رہی ہے کہ میرے ساتھ جن لڑکیوں کی بھی انڈر سٹینڈنگ ہوئی ہے وہ سب کی سب خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں امبر نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دی - چار سے پانچ منٹ وہ وہاں رکی اس دوران ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ، اس کے میاں کے آنے پر وہ وہاں سے چلی گئی ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تھا امبر مجھے بہت پسند آئی تھی اس کو دیکھ کر اب اس سے ملنے اور اسے چھونے کی تڑپ بہت شدت سے دل میں گھر کر آئی تھی اگلے دن اتوار تھا اس سے بات نہ ھو سکی -سوموار کو دن کے گیارہ بجے کے قریب اس کی کال آئی - مجھ سے کہنے لگی کہ عرفان تم بہت پیارے ھو بالکل اپنی آواز کی طرح - آپ کو دیکھنا اچھا لگا - میں نے کہا امبر تم تو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ھو آپ جیسا حسن میں نے زندگی میں بہت کم دیکھا ہےآپ کا چہرہ کھلتے گلاب جیسا ہے اور اس پر موٹی موٹی نشیلی آنکھیں - قیامت سے کم نہیں ھو تم ، "آئی لو یو میری جان " اس نے بھی آگے سے کہا "آئی لو یو ٹو جان جی " 
آپ کو دیکھ کر دل میں آپ سے ملنے کی تڑپ جاگ اٹھی ہے میں نے کہا - امبر نے کہا میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے میں آپ سے ضرور ملوں گی لیکن بس اب تھوڑا سا مزید انتظار ہے میرے میاں کو جا لینے دو پھر ہماری ملاقات ھو گئی -میں نے کہا کہ مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہے اس نے کہا کہ عرفان بس چند دن کی ہی تو بات ہے - دن گزرتے رہے ہم روٹین کی باتیں کرتے رہے اب کس kiss کرنا اور آئی لو یو کہنا نارمل سی بات بن گئی تھی پھر ایک دن اس نے کہا کہ عرفان سنڈے کو میرے میاں جا رہے ہیں آج سے وہ چھٹی پر ہیں اور گھر پر میاں سے ملنے رشتیداروں کا بھی آنا جانا لگا رہے گا ایسے میں آپ سے بات نہیں ھو سکے گئی لیکن آپ پریشان مت ہونا، اب میں اپنے میاں کے جانے کے بعد ہی آپ سے بات کروں گی - میں سنڈے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ جیسے ہی اس کا میاں جائے گا تو وہ اپنے جسم کی بھرپور لطافتوں کے ساتھ میری بانہوں میں ھو گئی اورمیں اس کے خوبصورت جسم سے سیراب ھو سکوں گا - آخر ******* کر کے سنڈے کا دن آ پہنچا جس دن اس کے میاں نے دوسرے ملک روانہ ہونا تھا - مجھے امید تھی کہ وہ آج رات مجھے کال کرے گی - اس نے مجھے منع کیا تھا کہ اب جب تک میں تمہیں کال نہ کروں تم مجھے کال نہ کرنا - اس رات میں نے اس کی کال کا انتظار کیا لیکن اس کی کال نہ آئی - میں بہت حیران اور پریشان تھا کہ اس نے کال کیوں نہیں کی ، دل میں عجیب عجیب خیال آ رہے تھے کہ اس نے پتا نہیں کس وجہ سے کال نہیں کی - میں نے ایک دو میسج بھی کیے لیکن کوئی جواب نہیں آیاسوموار کا دن آ پہنچا اور دوپہر ھو گئی لیکن اس کی کال نہ آئی میں نے کافی سارے میسج کیے لیکن کوئی رپلائی نہیں - مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ امبر کال کیوں نہیں کر رہی ہے ، اپنے میاں کے جانے سے پہلے وہ مجھ سے ملنے کے لیے بہت ہی زیادہ پرجوش تھی لیکن اسکے جانے کے بعد مجھ سے رابطہ نہ کرنا سمجھ سے بالاتر تھامیراذھن اس دن نیگٹیو خیالات کی آماجگاہ بنا ھوا تھا- سب سے زیادہ جو بات میرے لیے تکلیف کا باعث بن رہی تھی وہ اسکامجھ سے یوں لا تعلق رہنا تھا کیونکہ میں اس کا بہت زیادہ عادی ھو چکا تھا اس کی یہ بے اعتنائی مجھ سے برداشت نہیں ھو رہی تھی-بالآخر میں نے اسے کال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نمبر ڈائل کیا،اورآگیکمپیوٹرائز آوازآئی"آپ کامطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے، اس کا نمبر بند تھا، بند نمبر جان کر مجھے ایسا لگا جیسے منزل مجھ سے قریب آ کر دور چلی گئی ھو، منزل کیاتھی اس کے حسین جسم کا حصول، وہ جسم جس کے خواب میں پچھلے کچھ عرصے سے دیکھ رہا تھا،مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے اس کا حسین سراپا اب میری پہنچ سے دور ھو گیا ہے اور اب میں اس کو اپنی بانہوں میں لینے کی حسرت پوری نہیں کر پاں گا اور میری کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ھو گئی ہے مبر ان سب سے زیادہ حسین ہے اور یہ کہتے ہوئے میری نظر امبر پر ہی تھی اپنی تعریف سن کر امبر کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا اور وہ اس کا چہرہ سرخ ھو گیا تھا اور جب انیلہ نے مسکراتے ہوئے امبر کی طرف دیکھا تو امبر کا چہرہ شرم کے مارے مزید سرخ ھو گیا اور امبر مزید خوبصورت لگنے لگی تھی . امبر کو شرماتے دیکھ کر میں نے بات کا رخ بدلا اور پوچھا کہ امبر کیا بات تھی کہ تم نے اتنا انتظار کروایا آج منگل ہے تمہیں تو اتوار کی شام کو ہی کال کرنی چاہئیے تھی تو امبر نے جواب دیا کہ اتوار کی صبح میرا موبائل گر گیا تھا اور اس کی ایل سی ڈی ٹوٹ گئی تھی کل تک گھر میں مہمان تھے اس لئیے بازار نہیں آئی اور آج سب سے پہلے موبائل ٹھیک کروا کے آپ کو ہی کال کی ہے ، میں نے کہا آپ کے ہاں تو پی ٹی سی ایل بھی ہے آپ وہاں سے بھی تو کال کر سکتی تھیں تو اس نے کہا کہ بل کے ساتھ کال ریکارڈ بھی آتا ہے میں اپنے میاں کو شک میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اور ویسے بھی آپ کو جان بوجھ کر انتظار کروایا ہے ، وہ کیا کہتے ہیں نا کہ انتظار کے بعد ملنے کا اپنا ہی مزا ہے -میں نے کہا کہ "کسی کی جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری"اگر مجھے کچھ ھو جاتا تو ؟تو انیلہ بولی کہ عاشقوں کو انتظار کچھ نہیں کہتا- یہ عاشق لوگ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں اگر انہیں قیامت تک بھی انتظار کرنا پڑے تو یہ کر سکتے ہیں ، میں نے امبر کی طرف دیکھا اور اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ امبر مجھ سے پہلے بول پڑی کہ اس کا مائنڈ مت کرنا اس کو مذاق کرنے کی عادت ہے، اس دوران لڑکا برگر اور کوک لے آیا اور ہم برگر کھانے لگے- کھانے کے دوران جب امبر کا ہاتھ منہ کی طرف گیا اور اس کا دوپٹہ سینے سے ہٹ گیا تو میری نظر امبر کے سینے پر پڑی امبر کی چھاتیاں نہ ہی بہت زیادہ بڑی تھیں اور نہ ہی بہت زیادہ چھوٹی ، میرے اندازے کے مطابق امبر کی چھاتی کا سائز 34 تھا اور اس کی چھاتیاں ابھری ہوئی تھیں ، اس کی چھاتی دیکھ کر میرا اندر کا مرر جاگ گیا اور میرے لن میں تھوڑی سی ہلچل ہوئی اور وہ کھڑا ھو گیا ، راستے میں میں سوچ رہا تھا کہ آج میں امبر کے حسین اور رس بھرے ہونٹوں سے زندگی کشید کروں گا اور اس کے نرم و نازک جسم کو اپنی بانہوں میں لے کر اپنے من کی پیاس بجھا سکوں گا لیکن میرا یہ سپنا آج پورا ہونے والا نہیں تھا امبر اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ میرے سامنے تھی لیکن میری دسترس میں نہ تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ آج نہیں تو کل یہ حسین مورت میری بانہوں میں ھو گی ، انیلہ کی چھاتیاں امبر کی نسبت کافی بھاری تھیں اور انیلہ کی چھاتیاں کسی ہوئی لگ رہی تھیں اور اس کی چھاتی کا سائز میرے اندازے کے مطابق 38 تھا انیلہ کو مموں کے حوالے سے امبر پر فوقیت حاصل تھی لیکن امبر انیلہ کے مقابلہ میں زیادہ حسین تھی ، میرا ذھن صرف امبر کے جسم میں تھا اور اس کو ہی دیکھ رہا تھا اور انیلہ کے بارے میں میرے ذھن میں کوئی ایسا ویسا خیال نہیں آیا تھاہم کھانے کے بعد گپ شپ لگاتے رہے اس دوران مجھے میرے ایک دوست کی طرف سے کال آئی میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے ہی کال رسیو کی اور کال سننے کے بعد اپنا موبائل وہاں ٹیبل پر رکھ دیا جو وہاں سے انیلہ نے اٹھا لیا اور پوچھنے لگی کہ یہ کون سا ماڈل ہے تو میں نے کہا کہ نوکیا 2690 تو انیلہ نے کہا سمارٹ سا اچھا ماڈل ہے اس نے موبائل کے کچھ فنکشن دیکھے اور پھر مجھے واپس کر دیا ، اور انیلہ امبر سے کہنے لگی "چلیں " ؟امبر نے بھی کہا چلو - میں نے لڑکے کو آواز دی اور بل کا کہامیں نے بل کی ادائیگی کی اور اٹھ کھڑے ہوئے - میں نے پوچھا اب کب ملاقات ھو گی ؟ تو امبر نے کہا کہ شام کو فون پہ بات ھو گی پھر بتاں گی - ہم شاپ سے نکل آئے اور امبر اور انیلہ ایک طرف چل پڑیں ، میں نے پیچھے سے دیکھا تو امبر کی چال میں ایک تمکنت اور وقار تھا اور اس کا قد انیلہ سے نکلتا ہوا تھا ، اس کی گانڈ بھاری اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر میرے منہ سے ایک حسرت بھری آہ نکلی اور میں اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب یہ جیتا جاگتا حسین جسم اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ بنا کپڑوں کے میری بانہوں میں ھو گا --- میں واپس گھر آ گیا ، شام میں امبر کا میسج آیا کہ عرفان رات کو بات ھو گی میں اس وقت تھوڑی مصروف ھوں ، رات کے گیارہ بجے کے قریب اس کی کال آئی میں نے کہا "امبر تم بہت حسین ھو" تمہیں دیکھ کر کسی زاہد کا بھی ایمان ڈول سکتا ہے میں اپنی خوش بختی پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے کہ مجھے تم جیسی خوبصورت دوست ملی ہے ، مجھے ایک بات بتا کہ مجھ میں ایسا کیا ہے کہ تم نے مجھ سے بہت جلد دوستی کر لی تو امبر نے کہا کہ آپ سے دوستی اس لئے کی تھی کہ آپ پہلے لڑکے ھو جس نے پانچ سو کا لوڈ کروا دیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی آواز میں معصومیت تھی اور آپ کی باتوں سے ہوس نہیں جھلکتی تھی میں نے پوچھا کہ تھی ؟ کیا اب میری باتوں میں ہوس ہے ؟ تو اس نے کہا ہاں جب سے آپ سے مل کر آئی ھوں آپ کی نگاہیں مجھے اپنے جسم پر ہی رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لیکن اب مجھے آپ کے منہ سے اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے اور آپ کا ایسی والہانہ نظروں سے دیکھنا ایک دوسری ہی دنیا میں لے جاتا ہے -اب کب ملو گی میں نے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ کل میں اپنے لاہور والے گھر میں شفٹ ھو رہی ھوں اب ہماری ملاقات وہیں ھو گی ، میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں ؟تو اس نے کہا جی ہمارے گھر میں ،وہاں آپ کو کوئی ٹینشن نہیں ھو گی - میں نے کہا سوچ لینا کہیں کوئی مسلئہ ہی نہ بن جائیتو اس نے کہا ڈونٹ وری ،تو میں نے پوچھا کہ کب ؟ تو اس نے کہا میں آپ کو بتا دوں گی بس ایک دو دن کے اندر اندر ہماری ملاقات ھو گی . میرے مشاہدے کے مطابق سب سے زیادہ مزا گرل فرینڈ سے سیکس کا آتا ہے ، کیونکہ وہ گھر سے آتی ہی چدوانے کے لئے ہیں اور ذہنی طور پر تیار ہوتی ہیں اس لئے وہ بہت زیادہ رسپانس دیتی ہیں اس کے مقابلے میں بیوی سے بھی مزا آتا ہے لیکن گرل فرینڈ سے زیادہ نہیں ،اگلے دن وہ لاہور چلی گئی اب میں اس انتظار میں تھا کہ وہ کب مجھے ملنے کے لئے بلاتی ہے . ہماری فون پر بات چیت جاری تھی میں اس سے ملنے کے لئے بے صبری سے انتظار کر رہا تھادو دن بعد رات کو اس نے مجھے بتایا کہ کل ہم ملیں گے -یہ سنتے ہی میں نے فون پر اس کی بہت ساری کس kiss کیں اور بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ کہاں ملنا ہے تو اس نے کہا کہ لاہور میں میرے گھر میں ، تو میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں کون کون ہوتا ہے تو اس نے بتایا کہ میں اور میرا بے بی ، اس کے علاوہ میری ملازمہ اور گیٹ پر چوکیدار ، اس نے کہا کہ میں نے سب سوچ لیا ہے آپ میرے کزن ھو لاہور کسی کام سے آئے ھو اور ایک دو دن ہمارے گھر میں رھو گے ، میں نے ملازمہ سے آپ کے آنے کا کہہ دیا ہے آپ میرے مہمان کی حثیت سے ہمارے گھر رھو گے آپ کل صبح ٹھوکر اتر جانا میں آپ کو وہاں سے پک کر لوں گی ہمارے ملنے کا ٹائم بن گیا ، میں نے اگلی صبح اٹھ کر اچھی طرح شیو بنائی اور انڈر شیو بھی کی اور خاص طور پر اپنے ٹٹوں testicals کی صفائی کی ، اچھی طرح تیار شیار ھو کر بیگ میں ایک سوٹ رکھا اور گھر والوں کو بتایا کہ دوست کے پاس لاہور جا رہا ھوں ھو سکتا ہے ایک دو دن وہاں رہنا پڑ جائے اور گھر سے نکل آیا ، میں نے امبر کو فون کیا کہ میں گھر سے نکل آیا ھوں اور بارہ بجے کے قریب ٹھوکر پہنچ جاں گا تو امبر نے کہا کہ میں آپ کو وہاں سے پک کر لوں گی آپ پہنچنے سے آدھا گھنٹہ پہلے مجھے میسج کر دینا ، میں نے کہا ٹھیک ھے ، میں بس میں سوار ہوا اور لاہور کے لئے روانہ ھو گیا ۔میں بس میں بیٹھا آنے والے حسین لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا ، آج بڑے افسر کی بیوی میرے ہاتھ سے چدنے والی تھی ، ان سنسنی خیز اور سیکسی لمحات کے بارے میں سوچتے سوچتے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو گئیں تھیں اور میرا لن کھڑا ھو گیا تھا ، میں اک انجانی سی لذت محسوس کر رہا تھا اور میں نے اپنا لن اپنے پٹوں thigh میں دبایا ہوا تھا اور مزے کی حسین وادیوں کی سیر کر رہا تھا کہ ایک انجان نمبر سے مجھے کال آئی ، میں نے کال رسیو کی تو آگے سے خاموشی - کوئی بول نہیں رہا تھا میں نے دو تین دفعہ ھیلو ھیلو کہنے کے بعد کال کٹ کر دی اور میسج کیا کہ " آپ کون ؟ " جواب آیا " آپ کی چاہنے والی " میں نے رپلائی کیا،کیا چاہتی ھو ؟ تو اس نے جواب دیا آپ کو - میں نے پوچھا کیا میں آپ کو جانتا ھوں تو اس نے لکھا شاید ہاں ، شاید نہیں -میرے ذھن پر اس وقت امبر سوار تھی اور میں نے وہاں ایک دو دن رکنا بھی تھا اس دوران کوئی ڈسٹربنس نہ ھو اس لئے اس سے جان چھڑانا ضروری سمجھتے ہوئے میں نے اسے لکھا کہ میں اگلے دو دن بہت مصروف ھوں اگر آپ مجھے چاہتی ہیں تو دو دن مجھے تنگ نہ کرنا - اس نے رپلائی کیا او-کے ،اب مجھے کنفرم نہیں تھا کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی ، میں اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ یہ کون ھو سکتا ہے لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی تو میں اس کی سوچوں کو ذھن سے جھٹکتے ہوئے امبر کے بارے میں سوچنے لگا کہ کیسے کیسے اس کی چدائی کرنی ہے ، میں نے آج تک پھدی نہیں چاٹی اور اگر اس نے پھدی چاٹنے کا کہہ دیا تو کیا کروں گا ؟ یہ سوال ذھن میں آیا تو اس کا جواب سوچنے لگا لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی پھر اس کا جواب صورت حال پر چھوڑ دیا - میں نے سنگ میل پر ٹھوکر پچیس کلو میٹر دیکھا تو میں نے امبر کو کال کی کہ میں آدھے گھنٹہ تک پہنچ رہا ھوں تو اس نے کہا ok میں آ رہی ھوں بس ٹھوکر پہنچی تو میں اتر گیا، میں نے اردگرد دیکھا لیکن مجھے وہاں امبر نظر نہیں آئی تو میں نے امبر کو کال کی اور کہا کہ میں اتر گیا ھوں آپ کہاں ھو ؟ تو اس نے کہاتھوڑا ویٹ کرو ، میں آپ کے پاس پہنچنے ہی والی ھوں، پندرہ منٹ بعد ایک کار میرے نزدیک آ کر رکی میں نے کار کی طرف دیکھا تو اس میں امبر تھی اس نے مجھے اشارہ کیا اور میں اگلا دروازہ کھول کر امبر کے ساتھ بیٹھ گیا امبر نے ہاتھ ملایا امبر کا نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ میں آیا تو جسم میں کرنٹ دوڑ گیایہ پہلی دفعہ تھا کہ امبر کو میں نے چھوا تھا اس کا ہاتھ ملانا مجھے بہت اچھا لگا اور میرے سارے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی - امبر کی تیاری سے لگتا تھا امبر کسی بیوٹی پارلر سے تیار ھو کر آئی ہے ، اس کی ہر چیز میچنگ تھی اس نے پنک کلر کے کپڑے پہنے ہوئے تھے امبر اس وقت بہت پیاری لگ رہی تھی ایک لفظ پڑھا تھا ملکوتی حسن ، اور آج اس لفظ کی تشریح حقیقت میں دیکھ رہا تھا - امبر نے دوپٹا نہیں اوڑھا ہوا تھا میری نظر اس کی چھاتیوں پر پڑی اس کے سینے کے ابھار سرکشی پر مائل لگ رہے تھے اور ایسے تنے ہوئے تھے جیسے یہ کسی پہاڑ کی دو چوٹیاں ھوں اور ان کو ابھی تک کسی نے سر نہ کیا ھو ، اور خود کو سر کرنے کی دعوت دے رہے ھوں ، امبر نے میری نظروں کی تپش محسوس کی اور اس کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ آ گئی اور اس نے پوچھا کہ عرفان سفر کیسا گزرا ؟ میں نے کہا آپ کی سوچوں میں سفر کا احساس ہی نہیں ہوا اور آپ کو دیکھ کر تو ویسے بھی فریش ھو گیا ھوں ، امبر تم بہت ہی پیاری لگ رہی ھو کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے ؟ تو امبر نے کہا آپ مسکہ بہت اچھا لگا لیتے ھو ، میں نے کہا امبر یہ حقیقت ہے کہ تم بہت سندر ھو .تمہارے جیسا رنگ و روپ اور نین نقش بہت کم لڑکیوں کے ہوتے ہیں تم تو میرے خوابوں کی شہزادی ھو ورنہ کسی عام لڑکی کے لئے کوئی اتنا سفر نہیں کرتا ، میں جب بھی اس کی تعریف کرتا تھا تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتی ھو ، میں نے پوچھا کہ امبر تم لاہور میں کس جگہ رہتی ھو تو اس نے کہا ماڈل ٹان ، ایسے ہی باتیں کرتے کرتے ہم ماڈل ٹان پہنچ گئے اس نے ایک شاندار گھر کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکی اور ہارن دیا چند لمحوں بعد چوکیدار نے گیٹ کھول دیا اور امبر کار اندر لے گئی اور مجھے کہنے لگی کی کہ تم میرے کزن ھو، میں نے پوچھا آپ کے بیٹے کا نام کیا ہے تو اس نے بتایا شہزاد میں نے کہا او-کے-ہم اتر کر اندر گئے تو سامنے ایک ادھیڑ عمر عورت ایک دو سالہ بچے کو پکڑے کھڑی تھی امبر نے اس سے بچہ لے لیا اور اپنے سینے سے لگا لیا میں نے امبر سے کہا کہ شہزادہ تو کافی بڑا ھو گیا ہے تو امبر نے کہا کہ انکل سے سلام لو تو میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے بھی ہاتھ بڑھا کر سلام لیا میں اس وقت امبر کا رشتہ دار ہونے کی ایکٹینگ کر رہا تھاامبرر نے ملازمہ سے کہا کہ صاحب کے لئے جوس لے کر آ ، (یہ ساری تفصیل آپ کو بور کرے گی اسلئے اس کو حذف کرتا ھوں ) قصہ مختصر دوپہر کا کھانا کھایا اور ملازمہ نے مجھے اوپر والے کمرے میں پہنچا دیا ، ملازمہ گھر تھی اس لئیے احتیاطا امبر مجھ سے زیادہ فری نہ ہوئی ، شام کو امبر اپنے بچے کے لئیے میرے ساتھ ماڈل ٹان پارک گئی ، پارک بہت اچھا تھا وہاں جوڑے اور انٹیاں واک کر رہی تھی وہ بہت سجی سنوری ہوئی تھیں بہت سارا ٹائم ہم نے پارک میں گزارا اور رات ھو گئی ، ہم گھر واپس آ گئے امبر نے کہا کہ کھانا باہر کھائیں گے آپ فریش ھو جا، میں نہا دھو کر تیار ھو گیا اور میں نے امبر کو میسج کیا کہ میں ریڈی ھوں تو اس نے جواب دیا او-کے-آدھا گھنٹہ بعد ملازمہ مجھے بلانے آئی میں نیچے گیا تو امبر تیار تھی اس نے ملازمہ سے کہا کہ شہزاد کا خیال رکھنا اور ہم کار میں بیٹھ کر باہر نکل آئے تو امبر نے کہا کہ کہاں کھانا کھا گے تو میں نے کہا کہ جو سب سے نزدیک رسٹورنٹ ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا میں سمجھ رہی ھوں آپ کو کس چیز کی جلدی ہے ، میں نے کہا اگر آپ کو پتا ہے تو پھر دیر کیوں کر رہی ھو ؟اس نے عجیب سے لہجے میں کہا "انتظار کا اپنا ہی مزا ہے اور ساتھ ہی اس نے ایک رسٹورنٹ کے سامنے کار کھڑی کر دی ، یہاں تک مجھے یاد ہے اس کا نام گورمے رسٹورنٹ تھا یہ ایک فیملی رسٹورنٹ تھا وہاں سے ہم نے کھانا کھایا اور گھر واپس آ گئے امبر نے کہا آپ اپنے کمرے میں جا -میں اپنے کمرے میں آ گیا میں کمرے میں آ گیا آپ مجھے امبر کے کمرے میں آنے کا انتظار تھا آج دوپہر سے میں امبر کے ساتھ تھا لیکن ابھی تک اس کے حسین جسم سے محروم تھا لیکن اب میرا یہ انتظار ختم ہونے والا تھا اچانک میرے ذھن میں آیا کہ عرفان تمہارے پاس تو کنڈوم ہی نہیں ہے کہیں کوئی مسلہ ہی نہ بن جائے یہ سوچ کر میں وہاں سے نکلا اور میڈیکل سٹور سے ٹائمنگ والے کنڈوم لے آیا اور ساتھ میں ایک ویاگرا کی گولی بھی - ابھی مجھے آئے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ ملازمہ اوپر آئی اور پوچھنے لگی صاحب جی کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز میں عجیب طرح کا لوچ اور دعوت گناہ واضح تھی اس نے کسی چیز پر بہت زور دیا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ تھی اس کی عمر چالیس کے اردگرد تھی اور وہ شکل و صورت کی ٹھیک ہی تھی میں نے کہا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں تو اس نے کہا کہ صاحب جی میرا کوارٹر گیٹ کے ساتھ والا ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو آ جانا یہ بالکل صاف اور واضح اشارہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ آج اس کی مالکن کے جسم سے میں اپنی ہوس کی پیاس بجھانے والا ھوں ورنہ وہ مجھے یہ پیشکش نہ کرتی ، میں نے کہا ٹھیک ہے اب تم جا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی ، میں نے امبر کو میسج کیا اچھی میزبان ھو ادھر مہمان بور ھو رہا ہے اوراس کو کوئی لفٹ ہی نہیں تو امبر کا میسج آیا کہ شہزاد سو گیا ہے لیکن ملازمہ ابھی جاگ رہی ہے میں تمہارے پاس بارہ بجے کے بعد آں گی- وہ مجھے تڑپا رہی تھی وہ وقت مجھے آج بھی یاد ہے اس کے بدن کو پانے کے لئے انتظار کے وہ لمحات کتنی مشکل سے گزارے تھے وہ دو گھنٹے صدیوں پر محیط لگ رہے تھے آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جب امبر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی ، میں اس کو دیکھ کر مبہوت ھو کر رہ گیا وہ اس وقت بہت ہی حسین لگ رہی تھی ملکوتی حسن کی مالک امبر میری دسترس میں آ چکی تھی لیکن سب سے مشکل کام ابھی باقی تھا وہ تھا ابتدا، شروعات ؟ پہلی دفعہ ملنے والوں کے لئے سب سے مشکل ہوتا ہے ، امبر بیڈ پر میرے قریب آ کر بیٹھ گئی میں نے ابتدا کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اس نے کوئی جنبش نہیں کی اور خاموشی سے بیٹھی رہی میرا حوصلہ مزید بڑھ گیا میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیا ، اس کے جسم کے لمس سے میرا سویا ہوا لن ایک جھٹکے سے انگڑائی لے کر کھڑا ھو گیا ، میں نے اپنا ہاتھ اس کی کمر سے اوپر کرتے ہوئے اس کی چھاتی پر لے گیا اور اس کی چھاتی کو ہلکا سا دبایا تو امبر نے خمار آلودہ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اس کے ہونٹ خشک تھے اور اس کی سانسیں تیز ہونا شروع ھو گئی تھیں میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست کر دئیے اور ان کو چوسنا شروع کر دیا اس کے ہونٹ ربڑ کی طرح سوفٹ تھے اور امبر نے بھی آگے سے رسپانس دینا شروع کر دیا اس نے اپنی زبان میرے منہ میں کر کے اسے گول گول گھمانا شروع کر دیا یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنی زبان اس کے منہ میں کر دی جسے اس نے چوسنا شروع کر دیا اب کبھی اس کی زبان میرے منہ میں ہوتی اور کبھی میری اس کے منہ میں ، اور ہم کبھی ایک دوسرے کی زبان چوستے اور کبھی ایک دوسرے کے ہونٹ ، اب میری ساری جھجک اتر چکی تھی اور اس وقت ہم بیڈ سے نیچے کھڑے تھے، میں نے اس کے ہونٹوں کو چھوڑ کر اس کے گالوں پر کس KISS کرنا شروع کر دی اور گالوں سے اس کی گردن پر آ گیا جیسے ہی میں نے اس کی گردن کو اپنی زبان سے چھوا تو اس کے منہ سے ایک لمبی آہ. . . . . .ہ . . . . . ہ نکلی اور اس نے زور سے مجھے اپنے ساتھ چمٹا کیا مطلب جھپی ڈال لی اس کی نرم و گرم چھاتیاں میرے سینے سے لگ گئیں اور میں اس وقت خود کو ایک الگ ہی دنیا میں محسوس کرنے لگا تھا میں نے اس کو زور سے اپنے سینے کی طرف دبایا اور ساتھ ساتھ اس کی گردن پر کس KISS کرتا رہا میں اس کی بیک پر چلا گیا اور اس کے بازں کے نیچے سے ہاتھ گزار کر اس کے دونوں ممے پکڑ لئے اس کے ممے پکڑے ہی تھے کہ اس کے منہ سے ایک تیز سسکاری بلند ہوئی اور اس کی سانسیں بھاری اور تیز ھو گئیں میں نے اس کے ممے مسلنا اور ساتھ میں اس کی بیک نیک(گردن) پر کسنگ شروع کر دی اس کی سسکاریاں تیز اور اس کی سانسیں پھول گئیں تھیں ایسے لگ رہا تھا کہ وہ فارغ ھو رہی ہے اور اس نے ایک تیز سسکاری کے ساتھ مجھے پیچھے دھکیل دیا اور خود بیڈ پر بیٹھ کرزور زور سے سانسیں لینے لگی وہ فارغ ھو چکی تھی میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر بعد اپنا ایک ہاتھ اس کی تھائی THIGH پر رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگا اور اس کی پھدی کے اس پاس کا حصہ بھی سہلانے لگا اس کی شلوار کا وہ حصہ گیلا ھو چکا تھا میں نے اسکی شلوار کو نیچے کیا اس نے میری طرف دیکھا لیکن کچھ بولی نہیں میں نے اس کی شلوار پہنچے سے پکڑ کر نیچے کھینچ لی اس کی صاف شفاف ٹانگیں بہت سیکسی لگ تھیں اس کی پھدی پر اس کی قمیض تھی اسلئے اس کی پھدی نظر نہیں آ رہی تھی میں نے ایک ہاتھ سے اس کی پھدی سے قمیض اٹھائی تو اس کی شیوڈ پھدی میرے سامنے تھی جس کو دیکھ کر میرے منہ سے رالیں ٹپکنے لگیں کیونکہ اس کی پھدی کے لپسLIPS آپس میں جڑے ہوئے تھے اور اس کی پھدی کے لپس ڈبل روٹی کی طرح پھولے پھولے تھے ابھی اس کی پھدی، پھدی ہی تھی پھدا نہیں بنی تھی میں اس کی پھدی کو دیکھ کر فل گرم ھو چکا تھا میں نے اس کی قمیض بھی اتاری دی اب وہ صرف برا BRA میں تھی اس نے سکن کلر کا برا پہنا ہوا تھا میں نے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کے برا کی ہک بھی کھول دی اب اس کے صاف شفاف ممے میرے سامنے تھے اس کے ممے گول اور ابھرے ہوئے تھے وہ ساری ننگی ھو چکی تھی میں نے اس کی چھاتیوں کو ہاتھوں میں لے کر دبانااور مسلنا شروع کر دیا وہ پھر سے گرم ھو چکی تھیاب اس نے میرے لن کو پکڑ لیا تھا اور اس کو دبانا شروع کر دیا تھا میں نے اس کی چھاتی منہ میں لے کر چوسنے لگا وہ بہت مدہوش ھو گئی تھی اس کی کوشش تھی کہ اس کی پوری چھاتی میرے منہ میں چلی جائے اب اس نے سسکنا بھی شروع کر دیا تھا وہ دوبارہ سے فل گرم ھو چکی تھی یہ دیکھ کر میں نے اپنے سارے کپڑے اتار دئیے ، اب ہم دنوں بالکل ننگی حالت میں تھے میں نے اس کے سارے جسم پر کسنگ سٹارٹ کر دی جس سے اس کے منہ سے نا معلوم زبان کے الفاظ نکلنے لگے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا آں آوں سی . . . . . . . اس کو فل گرم دیکھ کر میں نے لن اس کی پھدی میں کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں بھی بہت گرم ھو چکا تھا میں نے کنڈوم اٹھایا اور اپنے لن پر چڑھا لیا اور اس کو ٹانگوں سے کھینچ کر بیڈ کے درمیان میں کر لیا اس کی ٹانگیں اوپر کیں اور اپنے پیروں کی بیڈ کی نکڑ سے ٹیک لگا لی ، میں نے اپنے لن کو پھدی پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں سارا لن اس کی گیلی پھدی میں چلا گیا اس کے منہ سے ایک درد بھری آہ نکلی اور کہنے لگی کہ عرفان آرام سے ، میں نے دو تین دفعہ لن کو آہستہ سے آگے پیچھے کیا اور پھر اپنی سپیڈ تیز کر دی لیکن اب امبر کے منہ پر تکلیف کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے وہ ایڈجسٹ ھو چکی تھی میں نے زور زور سے دھکے مارنے شروع کر دئیے اور کمرے میں دھپ دھپ اور پچک پچک کی آوازیں میرے ہر دھکے کے ساتھ گونج رہی تھیں اور اس کے منہ سے آہ آہ آہ . . ..... آہ . . کی آواز نکل رہی تھی ایک دو منٹ کے بعد امبر کے جسم میں اینٹھن ہونے لگی اور تھوڑی دیر بعد اس کا جسم اکڑنے لگا میں نے اپنی سپیڈ اور تیز کر دی اس کے منہ سے عجیب طرح کی خرخراھٹ جیسی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں اور پھر ایک تیز اور لمبی سی . . . کے ساتھ ہی اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا وہ فارغ ھو چکی تھی میں نے بھی بس فارغ ہونے کے قریب تھا میں نے دھکے لگانا جاری رکھا اور جلد ہی فارغ ھو گیا اور اس کے اوپر لیٹ گی۔
اپنی کہانیاں اور آب بیتیاں ہمیں adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔