Monday 9 July 2012

Its Amazing



  •  نام سعد ھے۔میں ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ھوں۔میرا کلر تیکھا گندمی ھے اور میری ھائٹ 5 فٹ اٹھ انچ ھے۔۔میری انکھیں گہری بران ھے اور مجھ میں سب سے زیادہ لبھانے والی بات میرا بھولا بھالا اور معصوم سا چہرہ ھے۔مجھے دیکھتے ہی ہر شخص متاثر ہوجاتا ھے۔ایک بات جو میں نے بہت پہلے نوٹ کرلی تھی کہ مجھے خوبصورت لڑکے اٹریکٹ کرتے ہیں اور انھیں دیکھتے ہی میرے دل میں عجیب سا احساس جاگ جاتا ھے۔پہلے تو میں اس بات کو نھیں سمجھ پایا لیکن اہستہ اہستہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں لڑکوں میں سیکس اٹریکشن محسوس ہوتی ہے اور حقیقت میں میں لڑکوں کو پیار کرنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں حد سے زیادہ شرمیلا تھااور کسی کے ساتھ سیکس کرنا تو دور کی بات اگر کسی کی طرف سے ایسا اشارہ بھی ملتا تو چاہنے کے باوجود میں اپنے سخت رویے سے ان کی حوصلہ شکنی کردیتا۔کسی کو ہمت ہی نہیں ہوئی کے مجھ سے اس حوالے سے کوئی بات کرپاتا،ایک طرف میں چاہتا تھا کہ کسی بھی لڑکے کو لپٹا کر اسے پیار کروں دوسری طرف مجھے اتنی شرم آتی تھی کہ کوئی شرارت سے مجھے انکھ بھی مارتا تھا تو میں گبھرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔میرے بہت سارے دوست ایسے تھے کہ جن کے ساتھ میرا دل سیکس کرنے کو تڑپٹا تھا مگر شرم کی وجہ سے میں صرف تصور میںہی ان سے دل بہلاسکتا تھا۔جب میں کالج میں آیا تو سب سے پہلے جو لڑکا مجھ سے ٹکرایا وہ راحیل تھا۔میرے اب تک کے دوستوں میں سب سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ۔اسے دیکھتے ہی جیسے میرا دل اچھل گیا۔اس کا قد میرے برابر تھا لیکن چہرہ پنکش وائٹ تھا۔وہ جب ہنستا تھاتو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے۔ہونٹ ترشے ہوئے سیب کی قاشوں جیسے اور دانت موتی کی طرح چمکتے ہوئے۔پہلی ہی نظر میں میں اس پر اپنا دل ہار گیا۔میں اس کے ساتھ ہی بیٹھتا تھا اور زیادہ تر وقت میں اسے کن انکھیوں سے اسے تکتا رہتا تھا۔اکثر میری نظریں اس کی پینٹ کی زپ والی جگہ کو ٹٹولتی رہتی تھی۔کئی بار مجھے اس کے ابھار کی انڈرلائن محسوس ہوئی جس کا احساس کرکے میرا بھی لمحوں میں کھڑاہوجاتا تھا۔اب میرے خوابوں میں صرف راحیل ہی تھا۔ کچھ دن بعد کالج میں چھٹیاں پڑگئیں۔تب تک میں اور راحیل بہت گہرے دوست بن چکے تھے۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی لیتا ہے اور بعض اوقات میری لاعلمی میں تکتکی باندھ کر مجھے دیکھتا ہے۔میں سوچتا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی ایسی بات کرے گا یا اشارہ بھی دیگا تہ میں ہمیشہ کی طرح بیوقوفی نہیں کرونگا اور اپنے دل کی بات کھل کر اس سے کہہ دونگا لیکن ایساہونہ سکا۔کالج بندہوگیا اورہم روز ملنے سے رہ گئے۔مجھے اس کی یاد ستاتی اور میں کالج کھلنے کی دعا کرنے لگا۔یونہی 15 دن گزرگئے۔وہ اتوار کا دن تھا جب امی نے اکر مجھ سے کہا کہ تمہارے کسی دوست کا فون ہے۔فون پر راحیل تھاہیپی برتھ ڈے ٹو یو راحیل کی آواز آئی اور میں حیران رہ گیا۔آج میری سالگرہ تھی اور یہ اسے یاد تھا۔میں نے اسے تھینکس کہا اور اسے بتایا کہ مجھے اس کی بہت یاد آرہی ہے۔تو ملنے کیوںنہیں آجاتے ?اس نے کہا آج سب گھر والے انکل کے یہاں جا رہے ہیں، اگر تم آتے ہو تو میں رک جاتا ہوں؛میری تو جیسے دلی مراد پوری ہوگئی۔میں نے فورا حامی بھر لی کہ میں 5 بجے تک اس کے گھر پہنچ جائونگا۔اس خیال سے کہ وہ شام کے وقت اپنے گھر اکیلا ہوگا میرے دل میں گدگدی ہونے لگی۔نہ جانے کیوں مجھے شدت سے یہ فیل ہونے لگا کہوہ بھی اکیلے میں مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔فون بھی اس نے اسی وجہ سے کیاہوگا۔میں نے پکی ٹھان لی کہ اگر اس نے زرا سا بھی اشارہ دیا تو میں شرمائے بغیر اسے فورا اسے اپنی باہوں میں بھر لونگا۔ اس کے گلابی نرم و نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوم لونگا۔اس کے گلابی گالوں کو جی بھر کے چومونگا۔ا ایسے ہی حالات کے ساتھ میں اس کے نارتھ ناظم آباد بلاک جے کے 240 گز والے شاندار مکان کے سامنے وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ایف بی ایریا سے اس کے گھر تک کوئی بس ڈائریکٹ نہیں جاتی تھی اس لیے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن میں راحیل کے خیالوں میں کھویا آرام سے وہاں پہنچ گیا۔بیل دبانے پر جس نے دروازہ کھولا اسے دیکھ کر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ کوء 26،27 سال کا انتہاء خوبصورت لڑکا تھا۔اس کی بڑی بڑی نیلی انکھیں تھی۔کلر ایسا جیسے کسی نے دودھ کی کڑاہی میں بہت ساری روح افزا کی بوتل انڈیل دی ہو۔ہونٹ لال سرخ ہورہے تھے۔اس کا قد 6 فٹ سے نکلتا ہوا تھا اور جسم کسرتی تھا۔چوڑا چکلا سینہ کمر تک آتے آتے وی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔اس نے بلیک کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ اور نیکر پہنی ہوئی تھی۔نیکر بہت ٹائٹ اور چھوٹی تھی جس میں سے اس کی بھری بھری رانیں پھوٹی پڑ رہی تھی۔ان گلابی رانوں کو دیکھتے ہی میرا میٹر شورٹ کر گیا تھا۔اس نے اوپر سے لیکر نیچے تک میرا جائزہ لیا۔اس کے ہونٹوں پر ایک دلاویز مسکراہٹ ابھری،جی فرمائیے ،اپ کس سے ملنا چاہتے ہیں? اس نے جلترنگ جیسی آواز میں پوچھا۔وہ جی وہ راحیل۔ ۔ ۔  میری پھنسی پھنسی آواز نکلی۔اس کی شخصیت کے آگے میرا دم نکل گیا تھا۔اچھا تم سعد ہو وہ مسکرایا آجائو، راحیل واش روم میںہے وہ آگے چلا میں اس کے پیچھے۔ پیچھے سے اس کی گاند کی بھری بھری گولائیاں بلکل چپکی ہوئی نیکر کی وجہ سے قیامت ڈھا رہی تھی۔چلتے چلتے وہ اچانک مڑا۔میں بری طرح بوکھلا گیا۔مجھے یوں لگا جیسے اسے پتہ چل چکا ہے کہ میں اس کے کولہوں کو گھور رہا تھا۔وہ پھر بغور مجھے دیکھنے لگا۔مسکرایا اور دوبارہ پلٹ کر چلنے لگا اورہم ڈرائنگ روم میں آگئے۔ٹھیک اسی وقت اندرونی دروازے سے راحیل بھی آیا اور گرمجوشی سی مجھ سے آکر لپٹ گیا۔پھر اس نے کہا سعد یہ میرے بڑے بھائی ثاقب ہیں واقعی اس کے نقوش راحیل سے بیحد ملتے تھے لیکن حقیقت میں ثاقب راحیل سے بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ثاقب شرارت سے مسکرایا۔اصل میں ان کے بھی ایک دوست آنے والے تھے اس لئے یہ رک گئے ہیں راحیل نے بتایا۔میں اور راحیل بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر چلاگیا۔میری عجیب سی کیفیت تھی۔بار بار مجھے ثاقب کی ننگی رانوں کا خیال ارہا تھا۔میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اندر سے بہت سارے لوازمات لیکر آگیا اور راحیل زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرتا رہا۔ثاقب بھی برابر والے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔میرے بدن میں پھر سرد سی لہریں دوڑنے لگیں میری نظریں کھاتے ہوئے پھر ثاقب کی رانیں ٹٹولنے لگیں۔اسی وقت گھنٹی بجی اور ثاقب اٹھ کر باہر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔اس میں اورثاقب میں کوئی چیز مشترکہ تھی تو وہ صرف قد کاٹھ تھا۔وہ کافی کالا تھا۔اور ثاقب کے ساتھ تو بلکل حبشی لگتا تھا۔مجھے وہ بلکل اچھا نہیں لگا۔ثاقب نے اس کا مجھ سے تعارف کروایا۔اس کا نام امجد تھا اور وہ بھی ثاقب کے ساتھ انجنئرنگ کالج میں تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔اب ثاقب بلکل میرے برابر اکر بیٹھ گیا۔اس کی ننگی گلابی ران میری ران سے ٹچ ہورہی تھی۔میں جھکی ھوئی نگاہوں سے اس کی نیکر کا ابھرا ہوا حصہ دیکھ رہا تھا۔نیکر کے اندر سے ہی محسوس ہورہا تھا کہ اس کا ٹول کتنا بڑا ہے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ ابھراہھوا حصہ نیکر پھاڑ کر نکل آئے گا۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ امجد مجھے دیکھ رہا ھے۔میں نے بوکھلا کر اپنی نظریں دوسری طرف گھمالی۔مجھے یوں لگا جیسے امجد مسکرا رہا ہے۔مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی۔میں نے اپنا دھیان باتوں کی طرف لگایا۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔اس کے جسم کا ہر زاوئیہ میرے اندر آگ لگا رہا تھا۔میں اپنے دل میں راحیل کے لئے کچھ خواب بسا کر ایا تھا اور میرے دل میں اس کا بھائی آبسا تھا۔5منٹ کے بعد امجد بھی اٹھ کر اندر چلا گیا۔راحیل مجھے اپنی کچھ پرانی تصویریں دکھانے لگا۔15 منٹ بعد ثاقب کوک لیکر آگیا۔امجد اس کے ساتھ تھا۔کوک پینے کے بعد میں اٹھ کھڑاہوا کہ اب میں چلونگا۔میں نے انھیں بتایا کہ بس کے لئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑے گا تو ثاقب ایک دم بولا کہ امجد حیدری جارہا ہے تمھیں بس تک چھوڑدے گا۔منع کرنے کے باوجود مجھے امجد کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا پڑا۔
  • بائیک پر امجد کے پیچھے بیٹھ کر مجھے احساس ہوا کہ امجد کا بدن کتنا چوڑاہے۔اس کی پیٹھ کے پیچھے سے مجھے کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا۔امجد مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔میں نے بتایا کہ ایف بی ایریا میں تو وہ بولا کہ اسے گھر سے کچھ لیکر گلشن جانا ہے تو میں اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے چھوڑ دیگا۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا۔چلتی ہوئی بائیک پر اس سے بات کرنے کے لئے مجھے اپنا اپ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے کان کے قریب جانا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے میرا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکرارہا تھا۔اسی دوران مجھے ایک مست کردینے والی خوشبو اس کی شرٹ سے اٹھتی فیل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرا بدن اس کے بدن سے ٹکرا کر ایک سنسنی سی میرے اندر دوڑارہا ہے۔کچھ ہی دیر میں ہم حیدری کے ایک اپارٹمنٹ میں داخل ہوگئے۔میرے منع کرنے کے باوجود اس نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے سیکنڈ فلور کے ایک فلیٹ کا چابی سے دروازہ کھول کر اندر لے گیا۔وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور مجھ سے کہا کہ صرف دو منٹ میں ہم چلتے ہیں۔فرج کی طرف جاتے جاتے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے یہاں اکیلا رہتاہے اور ثاقب جس کمپنی میں چیف انجنئر ہے وہیں ثاقب نے اسے ایک مناسب جاب دلوائی ہوئی ہے۔وہ دو گلاس اور کوک لے آیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں کوک پینے لگا۔اس دوران اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انجنئرنگ پوری نہ کر سکا اور یہ ثاقب کا احسان تھا کے بعد میں اس نے اپنی کمپنی میں ایک اچھی جاب دلوادی۔وہ اپنے بارے میں بتارہا تھا اور میں کوک پیتے ہوئے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اتنا کالا نہیں تھا جتنا وہ مجھے ثاقب کے ساتھ کھڑا ہوا لگا تھا۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اورہونٹ قدرے بھاری تھے۔گہری آنکھیں تھیں۔وہ بلکل میرے قریب بیٹھا ہوا تھا۔مجھے پھر اس کے اندر سے خوشبو فیل ہوئی۔مجھے پھر نیکر میں ملبوس ثاقب یاد آنے لگا اور میرے دل میں اس کے خیال سے خماری چھانے لگی۔میں تصور میں ثاقب کی نیکر اتار کر اس کے ٹول کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔اچانک امجد نے میری ران پر ہاتھ مارا۔میں بوکھلا گیا
  • کہاں کھوگئے اس نے پوچھا اور میں نے گڑبڑا کر بتایا کہ میں اس کی بات سن رہا ہوں۔اچانک اس نے مجھ سے پوچھاکیا ثاقب تمھیں اچھا لگتا ھے میں ششدر رہ گیا۔سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دوں۔جب اس نے میری ران پر ہاتھ مارا تھا تو دوبارہ نہیں ہٹایا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں ثاقب اچھا لگتا ہے۔ویسے وہ واقعی چیز ہے۔امجد کہے جارہا تھا اور مجھے چپکی لگ گئی تھی ۔میرا خیال ہے کہ تم بھی اسے اچھے لگے ہو میں نظریں جھکائے سن رہا تھا۔مجھ میں کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی۔میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور میرا پورا وجود کسی آگ میں جلنے لگا تھا۔ایسی اگ جس میں مزاہ تھا۔کیا تم ثاقب سے اکیلے میں ملنا چاہوگے? اب میں نے حیران ہو کر اپنی نظریں اٹھائی۔عین اسی وقت اس نے اپنے ہاتھ سے میری ران کو دبایا جس سے اس کے سوال کا اصل مقصد اور بھی واضح ہوگیا۔ ہاں وہ تمہیں پسند کرتا ہے اور تم بھی اسے پسند کرتے ہو، لیکن اسے ڈرہے کہ تم اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ہو کہیں اسے بتانہ دو،میرے پاس اس کے کسی بات کا جواب نہ تھا۔لیکن یہ خیال کہ ثاقب مجھے پسند کرتا ہے میرے وجود کو شرشار کر گیا۔لیکن ابھی بھی میں امجد سے کچھ نہ کہہ سکا۔ایک بات بتا کبھی تم نے پہلے کسی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ امجد نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑدیا اور میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔اسی وقت اس نے میری ران پر اپنا دبا اور بڑھادیا۔ میں تم کو ثاقب سے اکیلے میں ملواسکتا ہوں۔کیا تم اس سے ملنا چاہوگے?میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں سختی سے منع کردوں مگر میرا دل مجھے روک رہا تھا۔میرے بدن میں سوئیاں سی دوڑ رہی تھی۔کیا ۔ ۔ کک کیا یہ ممکن  میرے منھ سے بس اتنا ہی نکلا۔ہاں ۔تمہاری خواہش پوری ہوسکتی ہے لیکن تمہیں اس گبھراہٹ کو اپنے اندر سے نکالنا ہوگا،کک۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔  میرے منہ سے نکلا اور وہ شرارت سے مسکرایا۔اس وقت وہ میرے دل کی بات کررہا تھا اور مجھے دنیا میں اپنے سب سے قریب محسوس ہورہا تھابتادوں کیسے اس نے میری انکھوں میں اپنی انکھیں ڈال دیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ایک دم جھکا اور میرے گالوں کو چوم لیا۔اس کا میری ران پر رکھا ہواہاتھ کھسکتا ہوا میرے پیٹ پر آگیا۔یہ زندگی میں پہلی بار میرے ساتھ ہوا تھا۔میں ہکا بکا امجد کو دیکھتا رہ گیا۔تمہیں برا تو نہیں لگا اس نے تشویش سے پوچھا اور مین حسب عادت چپ رہا۔وہ سمجھ گیا کہ مجھے برا نہیں لگا۔اس کا ہاتھ جو اب بھی میرے پیٹ پر تھا تھوڑا سا نیچے آیا اور میری پینٹ کی زپ والی جگہ پر آکے ٹھہر گیا۔ایک لمحے بعد وہ دوبارا جھکا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور میری زپ والی جگہ پر اس کے ہاتھ کا دبا ایک دم بڑھ گیا۔میرا پورا بدن آہستہ آہستہ کپکپانے لگا۔اس بار اس نے بغیر رکے میرے ہونٹوں کی کسنگ جاری رکھی۔میری آنکھیں خودبخود بندہوگئیں۔اس نے دانتوں سے میرے ہونٹ کاٹنا شروع کردئے۔میں نے اپنے ہونٹ دبائے ہوئے تھے۔پھر اس نے میرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی۔اس کی زبان کی گیلاہٹ میں نے اپنے ہونٹوں پر فیل کی اور پھر اس کی زبان کا دبا میرے دبے ہوئے ھونٹوں پر پڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دونوں ہونٹ کھل گئے اور اس کی گرم زبان میرے منہ میں دوڑ گئی۔میرا پورا وجود طوفانوں کی لپیٹ میں تھا۔بند آنکھوں سے میرے تصور میں ثاقب در آیا۔مجھے لگا جیسے ثاقب کے سرخ ہونٹ میری زبان کو چوس رہے ہیں اور اس کی رسیلی زبان میرے منہ میں دوڑ رہی ہے۔لذت اور انبساط سے میری روح تک شرشارہوگئی۔وہ دیوانوں کی طرح میرے ہونٹ اور زبان چوس رہا تھا۔ساتھ ہی اس کے گرم ہاتھ میری پیٹھ پر دوڑ رہے تھے۔میں نے اس کے تھوک کو امرت سمجھ کر اپنے حلق سے نیچے اتارا اور پھر اس کا حسین گلابی چہرہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھولدیں اور اپنے سامنے امجد کا چہرہ دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی اور میں نے غیر اردی طور پر اپنا سر پیچھے ہٹایا۔کیا ہوا اس نے بڑے پیار سے مسکرا کر پوچھاکک۔ ۔ کچھ نہیں میں اتنا ہی کہہ پایا۔اس نے میری کمر پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ثاقب کی جگہ امجد کو دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی تھی۔کیا ثاقب میرے ساتھ واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ کرنا ۔ ۔ مطلب مجھے پسند کرتا ہے  میرے اس اچانک سوال سے سے اس کی مجھ پر نہ صرف گرفت کمزورہوگئی بلکہ اس کے چہرے سے لمحہ بھر کے لئے مسکراہٹ بھی غائب ہوگئی لیکن دوسرے لمحے میں وہ مسکرایا۔یقینا اسے ثاقب کے لئے میری بے چینی بری لگی تھی۔تم بھول رہے ہو میرے ساتھ تمہیں زبردستی بائیک پر اسی نے بٹھایا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ میں تمہیں کسی طرح کریدوں کہ تم اسے چاہتے ہو کہ نہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی گڑبڑہو کہ جس سے راحیل یا گھر کے کسی اور فرد کو پتہ چل جائے۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ دنوں میں حالات سازگار کرکے تمہیں اس سے ملوادونگا یہ کہہ کر وہ دوبارا جھکا اور میرے منہ میں اپنی زبان گھسیڑ دی۔میں امجد کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔وہی تھا جو مجھ جیسے ڈرپوک لڑکے کو ثاقب سے ملواسکتا تھا اور دوسری بات یہ کہ میرا اپنا گرم وجود اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے اندر سمالے۔اس نے مجھے دونوںہاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیا اور دیوانہ وار میرے منہ میں اپنی زبان دوڑانے لگا۔میری سانسیں اتھل پتھل ہورہی تھیں اور زندگی کا وہ لطف جس کا میں صرف خواب دیکھا کرتا تھا کہ کسی کے سینے سے لگ کر اپنے جنم جنم کی پیاس بجھالوں وہ آج میں نے پالیا تھا۔کتنی عجیب بات تھی کہ آج میں گھر سے راحیل کے ساتھ کچھ کرنے کی خواہش لیکر نکلا تھا اور اس کے گھر پہنچنے کی بعد میرے خوابوں میں مجھ سے دس سال بڑا اس کا بھائی آبسا تھا لیکن میرا وہ خواب ایک تیسرے ہی فرد کے ساتھ پوراہوا تھا جو پہلی نظر میں مجھے بہت برا لگا تھا۔ امجد مجھے سینے سے بھینچے میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور پھر اس نے اپنی زبان سے میرے گال چاٹنا شروع کردیئے۔وہ پاگلوں کی طرح میرے پورے منہ کو چوس رہا تھا۔کبھی گال تو کبھی انکھیں اور کبھی میری گردن۔یونہی چومتے چوستے وہ میرے کان تک آیا اور اپنے دانتوں سے کان کا سرا آہستہ آہستہ کترنے لگا۔شدت لزت سے میری آہ نکل گئی۔کانوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے وہ بڑی مدھ بھری آواز میں بولا سعد یو آر گریٹ! تم بہت کیوٹ اور بھولے ہو۔میرا دل کررہا ہے کہ میں تمہیں اپنے اندر کہیں چھپالوں ۔تمہارے اندر ایک نشہ ہے یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے سینے سے لگائے ہوئے اٹھالیا اور مسلسل کسنگ کرتے ہوئے مجھے بیڈروم میں لے آیا اور بڑے پیار سے مجھے بستر پر لٹادیا۔پھر وہ خود میرے اوپر چھاگیا۔اس کے چوڑے چکلے وجود کے آگے میری مثال کبوتر جیسی تھی لیکن پورا مجھ پر آجانے کے باوجود اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ میں اس کے نیچے آکر پس نہ جائوں ۔جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے اپنی شرم طیاق کر اپنے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے گرد گھمائے اور اس کے منہ کو اپنی طرف کھینچ کر اس کے ہونٹوں پر کس کی۔امجد ششدر ہوکے مجھے دیکھنے لگا۔شاید اسے میری طرف سے کسی پیش قدمی کی امید نہ تھی۔دوسرے لمحے میں میری اس ادا پر فدا ہوکے اس نے دوبارا مجھے چومنا شروع کردیا۔میں آنکھیں بند کرکے جیسے ہوائوں میں اڑرہا تھا۔میرا پورا وجود لرز رہا تھا ۔میرا لنڈ میری پینٹ میں اتنا کھڑا ہوگیا تھا کہ پھنس رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے امجد نے میری شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے۔میرا نازک سا جسم اب اس کے سامنے کھلا تھا۔اس سے پہلے کے میں سوچتا کہ وہ اب کیا کرے گا اس نے اپنی زبان میرے ایک نپل پر رکھی اور اسے باقاعدہ چوسنے لگا۔اف۔ ۔ میری تو کراہ نکل گئی ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے چوسنے سے میرے بدن میں اس طرح کرنٹ دوڑ جائے گا۔میرے منہ سے مسلسل آہیں نکل رہی تھیں اور وہ ایک کے بعد ایک نپل چوسے جارہا تھا۔ اتنا مزاہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اور اس وقت تو غضب ہی ہوگیا جب چوستے چوستے وہ میرے پیٹ سے ہوتا ہوا میری ناف تک آیا۔مجھے ایسا لگا جیسے ایک اگ سینے سے رینگتی ہوئی میرے ناف تک آگئی ہو۔اور پھر امجد نے اپنی دہکتی زبان میری ناف میں گھسیڑدی۔میں جیسے اچھل پڑا۔ایک آہ سی میرے منہ سی نکلی اور میں نے شدت جذبات سے امجد کے سر کے بال پکڑلئے۔امجد ان باتوں سے بے پرواہ میری ناف کے گرد اپنی زبان گھما رہا تھا اور میں مسلسل سسکاریان بھر رہا تھا۔میں ساتویں آسمان پر اڑرہا تھا اور امجد میرے پیٹ کا ایک ایک حصہ چوم رہا تھا اور چوس رہا تھا۔اس کا ایک ہاتھ میری پینٹ کے ابھرے ہوئے حصے پر تھا جس کے دبا ئوسے میرا لنڈ اکڑنے لگا تھا۔پھر اس کے دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی میری پینٹ کے اوپر سے اندر سرائیت کر گئی۔مانو میری تو جیسے سانس رک گئی۔اس کی انگلی شاید میری انڈروئیر سے ٹکرائی اور اس نے تھوڑی سی اسے باہر کھینچ لی۔میں نے سرخ رنگ کی انڈروئیر پہنی ہوئی تھی جس کا تھوڑا سا سرا باہر آگیا تھا۔وہ میری انڈروئیر دیکھ کے مسکرایا۔لال کلر سیکس کا کلر ہوتا ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم عرصے سے اپنی خواہش دبائے بیٹھے ہو اپنا من مار کر شرم اور بدنامی کے خوف سے صرف تصورات میں جی بہلارہے تھے۔اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اج تم زندگی میں پہلی بار ایسا کر رہے ہو۔آج تم بے خوف ہوکر اپنے دل کی بھراس نکال سکتے ہو۔یقین کرو میں دل سے تمہارے ساتھ ہوں۔آج صرف اور صرف تمہارا دن ہے اس کے بعد وہ دوبارا جھکا اور میرے ہونٹ بڑی نرمی سے چوم لئے۔اس کا انداز میرے ساتھ بہت ہی والہانہ تھا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو مجھے نوچ کھسوٹ سکتا تھا میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔لیکن وہ مجھے تکلیف پہنچائے بغیر مجھے مزاہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔کسنگ کرتے کرتے اس کا ہاتھ پھسلتا ہوا میری پینٹ کے بیلٹ تک پہنچا اور اس نے میرا بیلٹ کھول دیا۔اس کی زبان دوباہ  میرے منہ میں دوڑ گئی اور اسی کے ساتھ اس نے پینٹ کا بٹن کھول کے میری زپ نیچے کردی۔زپ کی آواز کے ساتھ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔اتنا ٹینس میں زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا ۔عین اسی وقت اس نے دانتوں سے میری زبان پکڑلی اور اسے چوسنے لگا۔ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ پینٹ کے اندر کھسک گیا۔انڈروئیر پر ہونے کے باوجود اس کے ہاتھوں کی ہیٹ میں نے اپنے فل ٹینشن میں آئے ہوئے لندڈ پر محسوس کی۔میں ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔میری سانسیں اتھل پتھل ہوچکی تھیں ۔اس نے انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند پکڑ لیا۔میری ایک طویل آہ نکل گئی۔اس نے بیتاب ہو کر میری زبان چوسنے کی رفتار بڑھادی۔ پھر وہ میرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ہوا میری گردن تک آیا اور پھر وہاں سے پھسلتا ہوا میری نپل تک ایا اور چند لمحے اسے چوسنے کے بعد سینے سے ہوتا ہوا پیٹ پر آیا ۔اس کی زبان کی گرمی اور گیلاہٹ سے میرا تن بدن جل رہا تھا۔ناف پر پہنچ کے اس نے ناف کے اندر تک زبان گھسیڑدی۔ساتھ ساتھ وہ خود بھی پھسلتا ھوا نیچے ہوگیا تھا۔اس کے دونوں ہاتھ میری پینٹ پر تھے۔ناف چوستے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں کے زور سے میری رانوں کو اوپر اٹھایا اور زبان ناف سے نیچے لے جاتے ہوئے میری پینٹ نیچے کردی اور اپنا منہ میری سرخ انڈروئیر کے اوپر رکھ کے میرے ابھرے ہوئے حصے کو اپنے دانتوں میں دبالیا۔یہ کام اس نے اتنی تیزی اور مہارت سے کیا کہ سرور اور کیف کی کیفیت میں میری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔میں زلزلوں کی لپیٹ میں تھا اور وہ میرا لند انڈروئیر کے اوپر سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔میری سسکیاں لزت و انبساط سے آہوں میں اور پھر کراہوں میں بدل گئی تھیں۔سرور کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امجد بھی رکا نہیں تھا۔گہری گہری سانسوں کے ساتھ اس کا بھی کام جاری تھا۔اب وہ انڈروئیر کے اوپر سے ہی میرا لند چوس رہا تھا۔اس کے والہانہ انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بھی بیحد مزاہ ارہا ہے۔اس کے تھوک سے میراے انڈروئیر کا وہ پورا حصہ گیلا ہوچکا تھا اور میرے لند کی پوری اٹ لائین لند کے وائٹش کلر کے ساتھ صاف نظر آنے لگی۔اس نے چمکتی انکھوں سے لمحہ بھر رک کر میرے ابھرے ہوئے لنڈ کا جائزہ لیا اور پھربے خود ہوکر دوبارہ انڈروئیر کے اوپر سے میرے لنڈ کو منہ میں لیکر چوسنے لگا۔مستی میں آکر میں نے اس کے ڈولتے ہوئے سر پرہاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیا۔دیر تک وہ انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند چوستا رہا۔میرے انڈرویئیر کا اوپری حصہ پورا گیلا ہوگیا تھا۔ساتھ ساتھ وہ میری انڈروئیر سے نکلتی ہوئی چکنی اور گوری رانوں پر بھی اپنی زبان پھیرتا رہا۔اس کی زبان کی حدت سے میرا پورا وجود پھنک رہا تھا۔اس کی بے خودی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چومتا تھا کبھی چوستا تھا کبھی کاٹتا تھا۔میرا لنڈتن کر پوری طرح میری انڈروئیر میں کھڑاہوچکا تھا۔اایک وقت آیا کہ میرے لئے یہ ناقابل برداشت ہوگیا۔میں ایک جھٹکے سے پلنگ پر بیٹھا اور بالوں ہی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کے سلگتے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور باقاعدہ سسکاریاں لیتے ہوئے اس کے ہونٹ بیدردی سے کاٹنے لگا۔اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے میرے لئے اپنے اپ کو ڈھیلا چھڑدیا۔اب میری زبان اس کے سیاھی مائل منہ کو چوم رہی تھی۔اس کے ہونٹ چوس رہی تھی۔اس کے منہ میں گھوم رہی تھی۔اس وقت مجھے اپنے جسم کی بھوک یاد تھی صرف۔نہ مجھے راحیل یاد تھا اور نہ ثاقب۔نہ مجھے یہ یاد تھا کہ جس کے ہونٹوں کو میں چاٹ رہا ہوں پہلی نظر میں وہ مجھے سخت برا لگا تھا۔میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے گال چاٹنے لگا۔پھر چاٹتے چاٹتے اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔میں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ کا بٹن کھولنا شروع کردیا ۔اس نے مسکرا کر نیچے سائیڈ سے اپنے بٹن کھول دیئے۔اب اس کا چوڑا چکلا سینہ میرے سامنے تھا۔اس کے سینے پر معمولی بال تھے۔نپل بڑے اور ابھرے ھوئے تھے اور پیٹ تو جیسے تھا ہی نہیں۔بلاشبہ اس کا جسم کافی سیکسی تھا۔ میں نے اس کی بڑی سی کمر پر اپنا ہاتھ رکھا اور جھک کر اس کے نپل کو اپنے منہ میں لے لیا۔ اس نے ایک طویل سسکاری بھری۔اس کا بدن جھرجھرایا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنوں کہ ساتھ سیکس کرچکا ہے لیکن مجھے یہ اندازا ضرورہو گیا تھا کہ میرے ساتھ اسے بہت مزاہ آرہا ہے اور میری طرح وہ وجد کی کیفیت میں ہے حالانکہ میرا تو یہ پہلا تجربہ تھا۔اسی کی طرح نپل چوستے چوستے میں زبان پھیرتا ہوا نیچے ہوتا چلاگیا اور اس کی سسکاریوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور جب میں ناف تک پہنچا تو وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔جب میں نے اس کی ناف پر اپنی ننگی زبان پھیری تو وہ تڑپ اٹھا۔میں اس کے اندر دبے ہوئے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا رہا اور وہ آنکھیں بند کئے مزے لیتا رہا۔اس کے بعد جب مجھ میں مزید برداشت نہ رہی تو میں نے اس کی پینٹ کی بیلٹ پر اپنا ہاتھ مارا۔آنے والے لمحات کے تصور سے اس کا پورا جسم کانپ کر رہ گیا۔خود میری سانسیں اکھڑ گیئں تھیں۔ اور پھر جب میں نے بیلٹ کھول کر اس کی پینٹ نیچے کی تو وائیٹ اندڑویئر میں اس کا وہ حصہ میرے سامنے تھا جس کو دیکھنے کے تصور سے مجھے کپکپی طاری ہوگئی تھی۔انڈروئیر کے پیچھے چھپے مال کو دیکھ کر میری آنکھیں پھیل گئیں ۔اس کے لنڈ کی اٹ لائین اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف لاحق ہوگیا لیکن سیکس کے بڑھتے ہوئے ٹینشن نے مجھے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیااور میں نے بے صبری سے اس کی انڈروئیر کے ابھرے ہوئے حصے پر اپنے ہونٹ رکھ دئے۔وہ بری طرح تڑپا۔میں نے اس کی گاند پر دونوں ہاتھ رکھ کے اپنا پورا منہ اس کی جانگھوں میں گھسا دیا۔اس کے ابھرے ہوئے بڑے سے لنڈ کو میں نے انڈروئیر کے اوپر سے اپنے منہ میں لیا اور آہستہ سے اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔میں وہی کررہا تھا جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہ اس کا حق تھا۔زندگی میں پہلی بار اس نے مجھے اس لذت سے روشناس کروایا تھا جس کی تمنا میں میں عرصے سے مراجا رہا تھا۔میں نے اس کی کالی رانوں پراپنی زبان پھیری۔اس کی رانیں بالوں سے صاف تھیں ۔رانوں سے کافی نیچے جا کر اس کی ٹانگوں پر بال تھے۔اس کی جلتی ہوئی رانوں پر زبان پھیرنے سے مجھے بڑا مزاہ ارہا تھا۔ اس کی پھنسی ہوئی انڈروئیر سے نکلتی رانیں میرے لئے وجد اور ہوگئی تھیں۔میں نے ان کی اسی طرف سے انڈرویئر کو اور اوپر اٹھایا یہاں تک کہ اس کے ٹٹے کا ایک حصہ نظر انے لگا اور وہیں اپنی زبان گھسیڑدی،اف ۔ ۔ اہ۔ ۔ میں گیا۔ وہ تڑپ اٹھا۔میں نے مزید انڈرویئر کو اٹھایا اور ساتھ ساتھ میری زبان نے اندر کی طرف پیش قدمی جاری رکھی او سعد ۔۔ ۔ آئی لو یو مائی بوائے۔ ۔ اٹس امیزنگ ۔ ۔ او گوڈ۔۔ وہ مسلسل سسکاریاں بھرتے ہوئے کچھ نہ کچھ کہتا تھا اور میں مسلسل اس کی ران کی طرف سے اپنی زبان اس کی انڈروئیر کے اندر تک لیتا چلاگیا۔میری زبان ران کے اخری حصے پر کونے سے ٹکرارہی تھی اور اس کے ایک ٹٹے کا کچھ حصہ بھی میری زبان کی زد میں آرہا تھا۔میں اپنی زبان دبا دبا کر اس کی ران کے اخری کونے پر پھیرتا رہا اور وہ سسک سسک کر میری حوصلہ افضائی کرتا رہا۔اس کے ابھار کا سائز بڑھتا رہا اور وہ وقت آیا جب اس کے لندڈکا اینگل پھسل کر کچھ کم ہوا تو مجھے وہ ہپناٹائز کردینے والا منظر نظر آیا۔اس کے بڑے سے لند کا ٹوپا انڈروئیر سے باہر چھلک آیا تھا۔میں سب کچھ بھول کر مسحورہوکے انڈروئیر سے باہر نکل آنے والے اس کے کالے لیکن چکنے لند کے بڑے سے ٹوپے کو دیکھنے لگا۔میرے لئے یہ ایک جادوئی منظر تھا۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی اور کے لند کو نہیں دیکھا تھا۔پھر جیسے میں سلوموشن میں بلکل ہپناٹائز ہوکے انڈروئیر کے اوپر سے اس کے لنڈ کو اپنے منہ سے رگڑتا ہوا اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا اور اس کے جلتے ہوئے لند کے نظر آنے والے حصے پر اپنی زبان پھیری اور دوسرے لمحے میں پورا ٹوپا اپنے منہ میں لے لیا۔اس کا پورا لنڈ لذت کی شدت سے تھرا گیا اور انڈروئیر تھوڑا اور نیچے ہوگیا ۔وہ لنڈ آہستہ آہستہ مجھے تڑپا تڑپا کر سامنے آرہا تھا اور میں صبر کئے بغیر اسے اور اپنے منھ میں لیتا جارہا تھا ۔اس کے منہ سے لایعنی آوازوں کا سلسلہ جاری تھا جو مجھے یہ احساس دلا رہا تھا کہ اسے کتنا مزہ آرہا ہے اور میں بھی بغیر رکے اس کے لنڈکے اوپری حصے کو چوسے جارہا تھا۔اس کے لند کی موٹائی سے میرا منہ تھک سا گیا اور میں نے اپنی زبان اور منہ کے تلے اس کے لنڈ کو پوری قوت سے دبا کر اپنے منہ کو باہر کھینچا۔وہ شدت لذت سے چیخ پڑا۔میرے بھی صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور میں نے دونوں طرف سے پکڑ کر اس کی انڈروئیر نیچے کھینچ لی۔اس کا اکڑاہوا لنڈ کسی راڈ کی طرح میرے گال سے ٹکرایا اور میں لند کا سائز دیکھ کر بوکھلا گیا۔اس کا لند آٹھ انچ سے بھی بڑا اور دو انچ سے زیادہ موٹا تھا۔میں یک تک لنڈدیکھے جارہا تھا۔
  • اس کو دیکھ کر میری آنکھوں میں تشویش کی پرچھائی لہرائی جو مجھے ایسا لگا کہ اس نے بھانپ لی ثاقب کو میرا لنڈ بہت پسند ہے۔وہ کئی کئی منٹوں تک اسے چوستا رہتا ہے  مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیا ہے لیکن اس کا یہ جملہ سن کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔نہ جانے کیوںمجھے یہ سن کر بلکل اچھا نہیں لگا کہ ثاقب اس کا لنڈچوستا ہے۔چشم تصور سے میں نے دیکھا کہ ثاقب کہ خوبصورت منہ میں امجد کا کالا لنڈہے۔اور وہ اسے مزے لی لیکر چوس رہاہے۔اس کے گلابی امجد کے لند کو چوم رہے ہیں اور اس کی ہموار زبان امجد کے پورے لنڈ کو چاٹ رہی ہے۔کبھی وہ اپنے منہ میں میں امجد کے کالے ٹٹے لیکر چوس رہا ہے۔میرے لیئے یہ تصور روح فرسا تھا کہ جس سے مجھے پہلی نظر میں محبت ہوگئی تھی وہ کسی اور کا اور وہ بھی اتنا کالا لنڈاپنے منہ میں لیتا ۔میرے نزدیک یہ ثاقب کے منہ کی توہین تھی۔پھر مجھے خیال آیا کہ میں بھی تو ہوس کے ہاتھوں مجبورہوکر امجد کا کالا لنڈ چوس رہا تھا۔میں نے ایک گہری سانس لی اور امجد کا بڑا سا لند اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ۔اس کے باوجود اس کے لنڈکا ٹوپا پوراہاتھوں کی گرفت سے باہر تھا اور ایک اور تصور اپنے دماغ میں لایا کہ اس لنڈ پر ثاقب کے خوبصورت ہونٹوں کا لمس ہے۔اسے اس کے سرخ لبوں نے چوسا ہے۔ایک بار پھر اس خیال نے مجھے بے حال کردیا اور میں نے بی تاب ہوکر اس کے لند کا ٹوپا اپنے منہ میں لے لیا اور جہاں تک میرے ہاتھ تھے وہاں تک میں نے امجد کا لنڈ منہ میں لیکر چوسا اور اس کے لنڈ کی نوک پر گیلی زبان پھیری۔اپنے تیئں میں امجد کا لند نہیں چوس رہا تھا بلکہ ثاقب کے لبوں کو چوس اس تھوک کی مہک فیل کررہا تھا جو امجد کے لنڈ کو چوستے ہوئے ثاقب کے منہ سے نکل کر امجد کے لنڈ کو گیلا کر گئی تھی۔میں نے اپنا ایک ہاتھ ہٹادیا اور امجد کے لنڈ کو اپنے منہ میں اور اندر تک لے گیا اور پوری دلجمعی سے اسے چوسنے لگا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا آدھا لنڈبھی پوری طرح میرے منہ میں نہیں آسکا تھا۔امجد کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ھوگیا اور اس نے مجھے اٹھایا اور میرے گیلے ہوتے ہوئے منہ میں پھر اپنی زبان گھسیڑدی اور بیتابانہ اسے چوسنے لگا۔اس کے ہاتھ پھسلتا ہوا میرے کمر تک آیا اور پھر اس نے بھی میری سرخ انڈروئیر کھینچ لی۔میرا تھراتاہوا لنڈ اس کے لنڈ سے ٹکرایا اور مانو چنگاریاں پھوٹ پڑی اور میں نے اس کے جسم سے اپنا جسم بھینچ لیا۔میرا نچلا نازک سا حصہ اس کے بھرے ہوئے نچلے حصے سے ٹکرارہا تھا ۔میرا لنڈ اس کے لنڈ سے باتیں کررہا تھا۔دیر تک وہ میرے منہ کی کسنگ کرتا رہا۔ او سعد ۔۔ ۔ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔تم سے پہلے تم سے بھی خوبصورت لڑکوں کے ساتھ میں نے ایسا کیاہے لیکن میری جان جو مزاہ مجھے تمہارے ساتھ آیا ہے وہ کسی کے ساتھ پہلے نہیں آیا۔تمہارے اندر کوئی ایسی کشش ہے کہ میں بھی پاگل ہوگیا ہوں۔ آئی لو یو مائی ڈارلنگ۔ ۔ ان جملوں کے ساتھ اس نے میری کسنگ بھی جاری رکھی اور پھر بڑی نرمی سے اس نے مجھے ہلکا سا پیچھے ہٹا کر میرے لنڈ پر نظر ڈالی ۔میرا لنڈ تقریبا ساڑھے پانچ انچ لمبا تھا اور اس کے اپنے لنڈ کے مقابلے میں کافی پتلا تھا لیکن بلکل سیدھا اور تنا ہوا تھا۔ میرا لنڈبالکل سفید دودھ جیسا اور بے داغ تھا۔میرے لنڈکو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے میرے تنے ہوئے لنڈ کو پکڑا اور آہستہ آہستہ اسے سہلانے لگا ۔اس کے ہاتھوں میں میرا لنڈہچکولے کھا رہا تھا۔پھر وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور کئی لمحوں تک میرے لنڈ پر نظر جمائے رہا۔آنے والے وقت کے تصور سے میرے اندر ہیجانی سی کیفیت طاری ہوگئی اور پھر وہی ہوا جو میں سوچ رہا تھا۔اس نے اپنے بڑے سے منہ میں میرا پورا لنڈ لے لیا۔اس کے گرم گرم منھ میں جا کر میرا لند جیسے سلگ اٹھا اور میری ایک ہیجانی سی چیخ نکل گئی۔مین نے پھر اس کے بال جکڑلیے جیسے لذت اگر ناقابل برداشت ہو گئی تو میں اسے بالوں سے جکڑ کر روک دونگا۔لیکن یہ لذت تو جتنی بڑھتی ہے اتنا ہی مزاہ آتا ہے۔وہ باقاعدہ آواز کے ساتھ میرا لند چوس رہا تھا اور اندر باہر کررہا تھا۔میرے لند کا سرا اس کے حلق سے جا کر ٹکرارہا تھا اور اس کا تھوک میرے پورے لند کو نہ صرف گیلا کر گیا تھا بلکہ باقاعدہ باہر رس رہا تھا۔اس کے وحشیانہ تابڑ توڑ چوسے نے میرا لند اکڑا دیا تھا اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔آخر میں چلایا بس امجد بس۔ ۔امجد نے میرا لند چوسنا چھوڑدیا ۔میرا لند بری طرح جھٹکے کھا رہا تھا۔وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میری گاند دبانے لگا۔اس کا ہاتھ میری گاند کی لکیر کے گرد گھوم رہا تھا۔میں اپنی اتھل پتھل سانسوں کو کنٹرول کررہا تھا۔اس دوران اس کی انگلی میری گاند کی لکیر کو آہستہ آہستہ چیررہی تھی۔اور پھر میں نے محسوس کیا کہ اس کی انگلی کا سرا میرے سوراخ کے گرد ٹھرگیاہے اور پھر مجھے اپنی گاند کے سوراخ پر اس کی انگلی چکراتی محسوس ہوئی۔یہ ایک نیا مزاہ تھا جس کا مجھے زرا آئیڈیا نہ تھا۔سنسنی کے مارے میری گاند کا سوراخ پھڑپھڑانے لگا۔پھر اس کی انگلی کا دبا میرے سوراخ پر بڑھ گیا۔میں نے ایک سسکاری لی۔اس نے پیش قدمی جاری رکھی۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خواری کے عالم میں ہے۔اس نے انگلی کو اور اندر کی طرف پش کیا اورشاید اس کی انگلی ناخن تک اندر گھس گئی لیکن میں خود تکلیف سے ہلکے سے چیخا تو اس نے فورا انگلی کھینچ لی اور میرے لند والی جگہ میں پھر اپنا منہ رکھ کر میرے لند سے رگڑنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ سخت بے خودی کے عالم میں ہے۔سعد۔ ۔ او مائی بوائے۔ ۔میں کیا کہوں تم کک۔ ۔ ۔ کیا چیزہو? میں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔مم ۔ میں نے آج تک کبھی کک۔ ۔ کسی سے گاند نہیں مروائی۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا تم ہاں میرے دوست تم مم ۔ ۔ میری گاند مارنا پپ ۔ ۔ پسند کروگے?میرا دل ان لفظوں کی ایکسائٹمنٹ سے اچھل پڑا۔میرے لند نے اوپر نیچے دوچار جھٹکے لئے۔مجھے اس سے اس پروپوزل کی امید نہ تھی۔یا تو میرا جادو اس پر پوری طرح چل گیا تھا یا پھر وہ میرا چھوٹا سا لند اپنی گاند میں لیکر بدلے میں اپنا بڑا سا لند میری گاند میں ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن ایک اور خیال نے میرا دل بٹھادیا۔اگر امجد نے آج تک گاند نہیں مروائی تھی تو پھر ثاقب۔ ۔۔ کیا ثاقب نے بھی نہیں?سوچ کے ساتھ ساتھ میرے منہ سے نکل گیا۔امجد نے چونک کر مجھے دیکھا ۔اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگیا۔نہیں۔ ۔  وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔ثاقب کو چکنے اور کم عمر لونڈے پسند ہیں۔تمہارے جیسے۔اس کا دل ایک سے دوچار ملاقاتوں میں اکتاجاتاہے آخری جملہ مجھے اضافی لگا۔شایدمجھے ثاقب سے بدزن کرنے لئے۔لیکن میرا دماغ تو ایک اور مسئلے میں پھنس گیا تھا۔اگر ثاقب امجد سے گاند نہیں مرواتا تھا تو اس کا لند تو چوستا تھا ۔تعلق تو تھا۔تو کیا۔ ۔تو کک۔ ۔ کیا تم اس کی۔ ۔ گاند۔ ۔ ۔ میں جملہ پورا نہ کرسکا۔وہی چشم تصور سے پھر میں نے دیکھا کہ ثاقب الٹا ننگا ہوکر لیٹا ہوا ہے اور امجد اپنا موٹا کالا لند ثاقب کی گدرائی ہوئی گاند کے سوراخ پر رکھ کر دھکا لگا رہاہے اور چند لمحوں میں ایک طویل چیخ کے ساتھ ثاقب نے اس کا پورا لند اپنی گاند میں لے لیا۔نہیں  امجد کا جواب کافی دیر بعد آیا۔جانے کیوں میرے دل میں اطمینان کی ایک لہر ڈور گئی۔ثاقب نے شاید کبھی کسی سے گاند نہیں مروائی۔میرا صرف لند چوسنا اسے اچھا لگتا ہے۔اسی دوران وہ دراز میں سے کریم کی ایک ٹیوب اٹھالایا اور بہت ساری کریم نکال کر میرے لند پر بکھیر دی۔اس نے میرا لند لینے کا پورا ارادہ کرلیا تھا۔میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں اسے روک دوں پر میری ہوس میرے دماغ پر غالب آگئی اور میں خاموشی سے اسے کریم میرے لند پر مسلتے دیکھتا رہا۔اس نے دوبارہ کریم نکالی اور میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹیوب ایک سمت پھینکی اور خود بستر کے کنارے پر بیٹھا۔ٹانگیں نیچے کئے ہوئے وہ پیٹھ کے بل لیٹا۔اپنی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں چیریں اور پھر اپنے ہاتھ کی کریم ساری اپنی گاند کے سوراخ کے گرد بکھیردی اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنی موٹی سی درمیانی کریم آلود انگلی اپنے سوراخ پر رکھی اور اسے دبایا ۔اس کی پوری انگلی گاند میں گھس گئی۔اس دوران اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا تھا ۔اس کی بھری بھری گاند پوری طرح میرے سامنے تھی اور اس کا کالا گول سوراخ پوری طرح کھل کر سامنے آگیا تھا۔اس منظر نے میرے دل میں ایک آگ سی لگادی۔میرا سر جلنے لگا۔پھر اس نے لیٹے لیٹے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھادی۔او مائی گوڈ میں ٹرپ اٹھا ۔اس نے میری طرف دیکھا اور ایک سسکاری بھری آواز میں بولا آ جان۔ ۔ میری گاند تمہارے لند کا انتطار کررہی ہے۔۔مم ۔ ۔ میں نہیں کر۔ ۔ پانگا۔ ۔میرے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی،نو پروبلم ۔ ۔ تم کوشش تو کرووہ فل موڈ میں تھا۔میں آگے بڑھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں آگیا۔میرے ہیجان کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا ابھی میرا لند پھٹ پڑیگا۔ہمت مجتمع کرکے میں نے اپنا تیر کی طرح سیدھا لند اس کے کالے سے سوراخ پر رکھا۔اس نے ایک سسکاری بھری۔میرا لند تھر تھرایا۔مجھے لگا کہ میں ٹچ کرتے ہی چھوٹ جانگا۔میں نے پیش قدمی روک کے اپنی سانس روک لی۔لند بری طرح اچھلا ۔کچھ توقف سے ہیجان کم ہوا تو میں نے سوراخ پر اپنا لند دبایااور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس کی گاند پر اور میرے لند پر لگی کریم نے دونوں کو اتنا سلپری کردیا تھا کہ ایک ہلکے سے دبا کے ساتھ میرا لند پھسلتا ہوا اس کی گاند میں گھستا چلا گیا۔اس کی تیز کراہ پر میں وہیں ساکت ہوگیا۔میرا پورا لند اس کی گاند میں تھا اور اس کی کراہ خاصی طویل تھی۔اس نے شدت درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔مجھے تعجب ہوا۔ جتنی آرام سے لند اس کی گاند میں گھسا تھا اس سے تکلیف تو ہونی ھی نہ چاہئے تھی۔وہ شاید ایکٹنگ کررہا تھا تاکہ اس کی باری پر میں بھی برداشت کروں۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوگیا تھا۔دل چاہا کہ اپنا لند اس کی گاند سے نکال لوں اور شاید وہ یہ بات بھانپ گیا کہ میں شش و پنج میں مبتلاہوگیا ہوں اور اس نے تکلیف دہ آواز میں کہا کہ میں رکوں نہ۔ میرا دل پھر میرے دماغ پر حاوی آگیا۔رکنے کا ایک فائدہ بھی ہوا کہ میں اس پیک پر تھا کہ اگر میں اپنا لند اسی وقت باہر کھینچ لیتا تو میری منی فورا نکل جاتی ۔وہ پورا منظر مجھے بے چین کئے ہوئے تھا ۔وہ بستر پر اوندھا لیٹا تھا ، اپنے ہی ہاتھوں سے اس نے اپنی دونوں ٹانگیں چیری ہوئی تھیں اور اس کی دونوں بھری بھری رانوں کے درمیاں میں خود تھا۔میرے سامنے اس کا ہچکولے کھاتا بڑا سا لند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میرا اپنا لند اس کی گاند میں تھا جو اس وقت فل ہاٹ ہورہی تھی۔اس گاند کی دیواروں نے میرا لند جکڑ رکھا تھا۔میں ہوائوں میں اڑرہا تھا ۔جوش اور جنون کے آخری عالم میں میں نے سب کچھ بھلا کر اپنا لند اس کی گاند میں اندر باہر کرنا شروع کردیا۔وہ کراہ رہا تھا ۔مزے سے یا تکلیف سے مجھے نہیں پتہ لیکن میں باقاعدہ مزے کے عالم میں چلارہا تھا۔میرے جسم کی تمام رگیں تن کر میرے لند کیساتھ شریک ہوگئیں تھیں۔میری ٹانگیں اس کی گاند سے ٹکرا کر آوازیں پیدا کررہی تھیں۔میرے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر تھے جس سے اس کی گرمی کا احساس ہورہا تھا۔اس کی گاند میں تو جیسے ہیٹر چل رہے تھے جس کی تپش سے میرا لند سلگ رہا تھا۔وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔اب جوہونا تھا وہ بھگتنا تھا پھر مزے کو کیوں پس پشت ڈالا جاتا۔میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لند اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا تھا تو وہ اپنا سوراخ ڈھیلا چھوڑدیتا تھا اور جب میں اپنا لند واپس کھینچتا تھا تو وہ اپنے سوراخ کو بھینچتا تھا جس سے میرا لند اور اکڑجاتا تھا اور میرا مزاہ دوبالا ہوجاتا تھا۔میرا لند مسلسل اس کی گاند کے سوراخ کو رگڑرہا تھا ۔اندر باہرہورہا تھا ۔مستی کا ناقابل بیان عالم تھا کہ جس کے ہاتھون میرا اپنا وجود میرے بس میں نہ تھا۔بیان کرنے کو تو یہ ایک لمبا وقفہ ھے لیکن حقیقت میں یہ چند لمحوں کا کھیل تھا ۔خواری میرے سر پر  چڑھی ھوئی تھی کہ میں زیادہ دیرہولڈ کرہی نہیں سکتا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے میری پوری جان میرے لند کے راستے اس کی گاند میں ٹرانسفر ہوجائے گی۔میں پسینے میں تر بترہورہا تھا۔جیسے ہی مجھے لگا کہ اب رکنا ممکن نہیں میں نے اپنی رفتار بڑھادی اور پوری قوت سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر مجھے لگا کہ ایک گرم لاوا میرے ٹٹوں سے چھوٹ پڑاہو۔میں شدت لزت سے چلایا اور شاید امجد کو بھی احساس ہو گیا کہ میں چھوٹنے والا ہوں۔وہ ساکت ہوگیا اور پھر جذبات کا ایک طوفان میرے لند کے راستے منی کی صورت میں اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا چلاگیا۔پہلی چیخ پہلا فوارہ،دوسری چیخ دوسرا فوارہ ،تیسری چیخ تیسرا فوارہ۔میری جان فواروں کی شکل میں اس کی گاند میں اترتی جارہی تھی۔میں بری طرح ہانپ رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ میرے لند کی طرف اپنی گاند ہلا رہا تھا۔میں بری طرح تھک کر رک گیا تھا لیکن اس کی حرکت جاری تھی ۔وہ مسلسل آگے پیچھے ہورہا تھا۔اس کی طلب بجھی نہیں تھی۔اس کا اپنا لند بری طرح ہوا میں لہرارہا تھا۔ میں بہت جلد فارغ ہوگیاتھا۔اس احساس نے مجھے تھوڑا سا ڈسٹرب کردیا۔اپنی کمزوری کا احساس کرکے مجھے شرمندگی فیل ہوئی اور شاید اس نے اس بات کو نوٹ کرلیا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایااس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میراہھاتھ پکڑااور ایک جھٹکے سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔میرا لند جو کہ بلکل سکڑچکا تھا اس کی گاند سے نکل گیا اور میں اس کے سینے پر آکے گرا۔اس کا لوہے کی طرح تنا ہوا لند میرے پیٹ کے نیچے دب گیا تھا اور وہ ابھی تک آگ کی طرح تپ رہا تھا۔میرا منہ بالکل اس کے منہ کے اوپر تھا۔ڈونٹ وری یار۔`وہ خمار آلود نظروں سے مجھے دیکھتا ہوا بولاشروع شروع میں ایسا ہی ہوتاہے۔آدمی اتنا ٹینس اور ایکسائیٹڈ ہوجاتا ہے کہ چند لمحوں میں فیصلہ ہوجاتا ہے`یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف بھینچ لیا اور اس کے ہاتھ میری پیٹھ پر رینگنے لگے۔میری خواری ختم ہوچکی تھی اور میں بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اب وہ پھر مجھے برا لگنے لگا تھا۔اس کا سیدھاہاتھ رینگتا ہوا میری گاند کی لکیر پر ایا اور پھر دھیرے دھیرے لکیر کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور پھر میری گانگد کے سوراخ پر اس کی وہی انگلی ٹھہر گئی جس پر کریم لگا کر اس نے اپنی گاند میں ڈالی تھی۔میری تو جیسے سانس رک گئی۔مجھے سخت تشویش ہونے لگی۔دل چاہا اسے روک دوں لیکن پھر ثاقب کا خوبصورت چہرہ میری انکھوں میں اتر آیا۔امجد کے بغیر ثاقب سے ملاقات میرے جیسے شرمیلے اور بوکھلائے ہوئے لڑکے سے ناممکن تھی اور ثاقب تو جیسے میرے لئے زندگی کی شکل اختیار کرگیا تھا۔میں امجد کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔میں نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے اور اپنی سانسیں بھی روک لیں ۔امجد نے میری گاند کے سوراخ پر اپنی سلپری انگلی کا دبا بڑھایااور اس کی آدھی انگلی سلپ ہوکر میری گاند میں گھس گئی۔میری نہ چاھتے ہوئے بھی تکلیف سے کراہ نکل گئی۔اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئے اور ساتھ ہی انگلی پر دبا بڑھا کر پوری انگلی میری گاند میں گھسیڑدی۔میں اس کے جسم پر ہی ہلکا سا اچھلا۔اس نے دوسرے ہاتھ سے مجھے خود پر سنبھالا۔ساتھ ہی میرے ہونٹ چوسنے لگا۔اس کے اور میرے درمیاں اس کا بڑا سا لوہے کی طرح سخت لند دبا ہوا تھا جس کے ہولناک سائیز نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔انگلی پوری اندر گھس چکی تھی ہلکے سے درد کے ساتھ مجھے ایک انجانا سا کیف بھی محسوس ہوا۔وہ آہستہ آہستہ اپنی انگلی اندر باہر کررہا تھا۔ایک ہلکا سا وجد مجھ پر طاری ہوا اور میرے اپنے بیٹھے ہوئے لند میں ہلکی سی جھرجھراہٹ پیداہوئی۔کاش اس کا لند بھی اتنا ہی ہوتا جتنی اس کی انگلی تھی تو کتنا مزاہ آتا لیکن اس کا لند کئی گنا بڑا تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ لند میری گاند پھاڑدیگا۔وہ دیر تک اپنی انگلی میری گاند میں گھماتا رہا ۔ساتھ ساتھ وہ مجھے دوسرے ہاتھ سے اپنے سینے پر دبائے ہوئے تھا۔اس کے لند کا گرم دبا سے میرا پیٹ دب گیا تھا۔ساتھ ہی وہ میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔پھر اس کی زبان میرے منہ میں دوڑنے لگی۔اس کی سانسیں اکھڑ گئیں تھیں اور وہ بہت بے صبراہورہا تھا۔جب اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تو اس نے مجھے اپنے سینے پر سے اتارا اور کھڑا ہوگیا۔اس نے پاس پڑی کریم کی ٹیوب اٹھائی اور بہت ساری کریم نکال کر کر اپنے لند پر مل دی۔خوف کے مارے میری جان نکل گئی تھی مگر میں خاموشی سے دیکھنے پر مجبور تھا۔مین اپنی باری کا مزاہ لے چکا تھا۔اب اس کو کس منہ سے منع کرتا۔اب کی بار اس نے مجھے دیکھے بغیر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے الٹا پلنگ پر لٹادیا۔میں الٹا لیٹا خوف سے آہستہ آہستہ لرز رہا تھا۔پھر مجھے اس کا ہاتھ دوبارا اپنی گاند پر محسوس ہوا اور پھر کریم میں لتھری ہوئی اس کی انگلی بڑے پیار سے میری گاند میں اتر گئی اور وہ اس کو سرکل کی شکل میں گھمانے لگا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ میرے سوراخ کو اپنا لند لینے کے لئے ہموار کررہا تھا۔پھر مجھے اچانک اس کی دوسری انگلی بھی اپنی گاند کے سوراخ پر فیل ہوئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اس نے دوسری انگلی بھی میری گاند میں گھسیڑدی۔درد اتنا تھا کہ میں کراہنے لگا۔اس نے دونوں انگلیاں ایک ساتھ اندر باہر کرنا شروع کردی۔میں کراہتا رہا اور اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ایک عجیب سا احساس تھا جو درد کو مزے میں تبدیل کررہا تھا۔وہ انگلیاں گھما گھما کر میرے سوراخ کو بڑا کررہاتھا تاکہ میں اس کا لند کم سے کم تکلیف کے ساتھ اپنی گاند میں لے سکوں ۔اور پھر وہ لمحہ بھی آگیا۔اس نے انگلیاں میری گاند سے نکال لیں اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور اسی کے ساتھ میں نے اس کا کھولتا ہوا لند اپنی گاند کی لکیر پر محسوس کیا۔میں ایک دم ساکت ہوگیا۔اس کا لند پھسلتاہوا ٹارگٹ کی طرف بڑھا اور پھر میرے سوراخ پر آکے ٹھہر گیا۔میرا سارا بدن ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔اس کے گرم لند کے ٹوپے کا دبا میرے سوراخ پر بڑھا ۔میں نے اپنے دانت بھیچ لئے۔اس نے زور لگایا۔میں نے اور زور سے اپنے دانت بھینچے۔ایک جھٹکا لگا اور اس کا صرف ٹوپا میری گاند میں گھس گیا اور برداشت کے باوجود میری بھیانک چیخ نکل گئی۔اپنی زندگی میں میں کسی ایسے درد سے نہ گزرا تھا۔اس نے بوکھلا کر اپنا ٹوپا باہر نکال لیا۔میں پلٹ کر بیٹھ گیا۔شدتِ تکلیف سے میں ابھی تک کراہ رہا تھا۔میری انکھیں آنسووں سے لبریزہوگئی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ مایوس کن نظروں سے مجھے دیکھ رہاہے۔اس کا لندہوا میں بری طرح بل کھا رہا تھا۔یہ یقینا ناانصافی تھی کہ اسے یوں خوار چھڑدیا جائے۔ سوری۔ ۔ ` میں نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا اور پھر دل پر جبر کرکے دوبارا الٹاہوکر اپنی گاند اس کے لند کی طرف کردی اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اپنا لند میری گاند میں ڈالنے کے لئے اپنے لند کا ٹوپا میری گاند کی لکیر پر رکھے۔انتظار کچھ لمحہ طویل ہوگیا اور پھر اس کے لند کے بجائے اس کا ہاتھ میرے کندھوں پر آیا اور اس نے مجھے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کردیا۔میں حیران ہو کر اس کی شکل دیکھنے لگا۔وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا۔چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کہ یہ ابھی کیا جائے۔پھر سہی۔`وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھتا ہوا بولالیکن۔ ۔ ۔ `میں نے اس کے کھڑے لند کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔سعد ائی لو یو۔پیار میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی۔`وہ بڑے خمار آلود لہجے میں بولاایسے مزے پر لعنت ہے جس سے تمہیں تکلیف ہو۔` اس کی اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔میں نے شکرگزار آنکھوں سے اسے دیکھا۔یقینا وہ مجھے شکل سے اچھا نہیں لگا تھا مگر وہ دل کا اچھا تھا۔اس کی محبت کا اظہار البتہ مجھے ڈسٹرب کررہا تھا کیونکہ مجھے تو ثاقب سے محبت تھی لیکن اطمینان طلب بات یہ تھی کہ اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ہوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر آکر اپنی زبان میرے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہیں ہورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک آیا ہواتھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا لند آگے پیچھے ہوکر ہم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ہیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منہ چوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے آپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ہوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح آہیں بھر رہا تھا ۔پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ہوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اکر اپنی زبان میرے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہیں ہورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک آیا ہواتھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا لند اگے پیچھے ہوکر ہم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ہیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منہ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے آپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ہوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح آہیں بھر رہا تھا ۔ طوفان تھمنے کے بھی کئی دیر تک وہ مجھے میرے منہ میری زبان چوستا رہا۔اس کا سارا وجود میرے اوپر کانپ رہا تھا۔ اس کا لند تھا کہ ٹھنڈاہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔نہ ہی اس کے سائیز میں کوئی فرق آرہا تھا۔اس کی دھیڑ ساری منی سے دونوں کا جسم لتھڑ گیاتھا۔تھوڑی دیر بعد وہ پلٹ کر برابر میں سیدھا لیٹ گیا اور پھرہاتھ بڑھا کر مجھے خود پر کھینچ لیا۔وہ مسکرایاآج تو مجھے مزہ آگیا۔تم کو اچھا لگا` میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔تم سے مل کر مجھے لگا ہے جیسے کوئی ادہورا پن ختم ہوگیا ھے۔میں آج بہت خوش ہوں`مجھے پھر ثاقب یاد آیا اور پھر مجھے وقت کا احساس ہوا۔میں نے اس سے کہا کہ بہت دیرہوگئی ہے گھر والے پریشان ہورہے ہونگے تو اس نے مجھ سے کہا کہ مین جلدی سے اپنا بدن دہولوں۔میرے بدن ہر پھیلی ہوئی اس کی منی سے مجھے بھی کراہت سی محسوس ہوئی۔مین نے جلدی سے اپنا بدن دھوکر کپڑے پہن لئے۔اس نے بھی یہی کیا۔اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اس سے پوچھ لیاکیا ثاقب مجھ سے واقعی ملے گا`وہ اس سوال پر چونکا۔اسے شاید ابھی مجھ سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر پھیکے انداز میں مسکرایاکیوں نہیں تم بس تھوڑا سا انتظار کرو۔میں تمہیں چند دنوں میں فون کرونگا۔`پھر اس نے مجھے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ڈراپ کیا۔دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھرہاتھ ملا کر بائے کرکے چلاگیا اور میں ثاقب سے ملاقات کا تصور کرتے ہوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔مجھے امید تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ایک دن میں ثاقب میرے دل و دماغ پر چھاگیا تھا۔اب مجھے بے چینی سے آنے والے حالات کا انتظار کرنا تھا

  • اپنی کہانیاں ،آبیتیاں اور آراء adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔


5 comments:

  1. ایسی تمام لڑکیاں یا آنٹی لمبے اور موٹے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چہاتی ہیں اور ایسی پیاسی لڑکیاں اور آنٹیز جن کو لن لینے کا بہت دل ھے مگر وہ بدنامی کے ڈر کی وجہ سے لن نھی لے پاتی وہ رابطہ کریں میں مکمل رازداری سے پھدی کی پیاس بجھا دونگا اور کسی کو خبر بھی نہں ھو گی خفیہ سکیس کے لیے لڑکیاں اور آنٹی رابطہ کرے اپنے لمبے اور موٹے لن سے پھدی کو ایسا مزہ دونگا کہ آپ یاد کرو گی سب کچھ مکمل رازداری میں ھوگا اس لیے بنا ڈرے رابطہ کرے فون نمبر 03005755442

    ReplyDelete
  2. ایسی تمام لڑکیاں یا آنٹی لمبے اور موٹے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چہاتی ہیں اور ایسی پیاسی لڑکیاں اور آنٹیز جن کو لن لینے کا بہت دل ھے مگر وہ بدنامی کے ڈر کی وجہ سے لن نھی لے پاتی وہ رابطہ کریں میں مکمل رازداری سے پھدی کی پیاس بجھا دونگا اور کسی کو خبر بھی نہں ھو گی خفیہ سکیس کے لیے لڑکیاں اور آنٹی رابطہ کرے اپنے لمبے اور موٹے لن سے پھدی کو ایسا مزہ دونگا کہ آپ یاد کرو گی سب کچھ مکمل رازداری میں ھوگا اس لیے بنا ڈرے رابطہ کرے فون نمبر 03065864795

    ReplyDelete
  3. Hello i am basit here, i want loving girlfriend, its my what's app and my personal number, you can call and sms me on my phone number and also you can what's app, the number is ❤ +923041845811 ❤ am decent loving caring boy, you can contact with me any time, and without any hesitation, you can trust on myself, am decent educated loving boy. Am waiting for your sincerely reply.thanks❤❤❤❤💋💓❤💋💋💓💋اگر آپ میرے ساتھ اچھا ریلیشن شپ رکھنا چاہتی ہیں تو آپ میرے ساتھ مکمل رازداری کے ساتھ رابطہ کر سکتی ہے

    ReplyDelete
  4. زینت خوبصورت تھی مگر اس کا جسم بہت خوبصورت تھا۔ اس کا فیگر بہت سیکسی تھا۔ اس کہ پتلے پتلے نرم ہونٹ اس کی بڑی بڑی دودھ سے بھری چھاتیاں دیکھ کر 75 سال کہ بوڑھے کا لنڈ بھی کھڑا ہوجاتا تھا۔ یہ میری خوشقسمتی رہی کہ میں زینت کہ خوبصورت جسم کو چود چکا ہوں۔ اس کہ نرم گلابی ہونٹ جب میں چوسا کرتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے میں کوئی میٹھا شربت پی رہا ہوں۔ اس دوران میں زینت کی قمیض اتار دیا کرتا تھا اور کالے یا سفید Bra میں زینت کی بڑی بڑی چھاتیاں دیکھ کر میرا لنڈ اس کی تعظیم میں کھڑا ہوجایا کرتا تھا۔ اور میں جھٹکے سے زینت کی Bra اتار دیتا اور پھر تو یقین کریں خود کو روکنا ناممکن ہوجاتا تھا جب زینت کی گوری اور بڑی بڑی چھاتیاں اور ڈارک بلیک براون بڑے بڑے نیپل میرے سامنے برہنہ پڑے ہوتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں ہمارا سارا دودھ پیکر ہمیں چود ڈالو۔ جب میں زینت کی چھاتیاں اپنے ہاتھ میں لیکر ان کو مسلتا تو وہ تڑپ جایا کرتی تھی۔ کبھی بستر پر مچلنے لگتی تو کبھی میرا لنڈ اپنے ہاتھوں میں لیکر اس کو سہلانے لگتی۔ اور میرے سینے سے چیپک کر میرے ہونٹ۔ میرے سینے کو چاٹنے لگتی۔ تو میں اس کی بالوں سے بھری گرم چوت پر ہاتھ پھیرتا اور اس کی جوسی چوت میں انگلی ڈال کر اندر باہر کرنے لگتا تو زینت نشے میں مست ہوجاتی تھی۔اور میرا لنڈ ہاتھ میں لیکر اس کو مسلتی تو وہ سخت لوہا بن جاتا تو وہ اس کو اپنے منہ میں لیکر دیر تک چوستی رہتی۔ اس کا دل ہی نہیں کرتا تھا کہ میں اہنق لنڈ اس کہ منہ سے باہر نکالوں۔ بعض اوقات میں اس کہ منہ میں ہی اپنی منی چھوڑ دیا کرتا تھا۔ پھر زینت بلکل ننگی اپنے خبصورت جسم کہ ساتھ میرے بستر پر بلکل سیدھی لیٹا کرتی اور میں زینت کہ اوپر چڑھ جاتا اور اس کہ ہونٹ، گردن۔ گالوں کو چومتے چاٹتے اس کی بڑی بڑی چھاتیوں کو منہ میں لیکر چوستا رہتا جب زینت گرم ہوجاتی تو وہ میرا لنڈ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی رسیلی چوت میں ڈال لیتی۔ اور پھر میں دیر تک اس کی چوت کو چودتا رہتا اور وہ میرے نیچے لیٹی سسکیوں کہ ساتھ اچھل رہی ہوتی تھی۔ پھر زینت کی شادی ہوگئی۔ اور وہ اسلام آباد چلی گئی۔اگر آپ کو زینت کہیں اکیلی ملے جہاں آپ دونوں کہ سوا کوئی نہ ہو تو آپ زینت کہ ساتھ کیا اور کیسے کریں گے؟

    ReplyDelete