Saturday 24 March 2012

Sex with Cozen


 دوستو میں پھر حاضر خدمت ہوں آپ کے حضور یہ سٹوری امید ہے آپ کو پسند آے گی
میں ایک چالو ٹائپ کی عورت ہوں چالو اس لئے کہ میرے شوہر انگلنڈمیں رہتے ہیں مجھے بے شمار لوگوں نے چودا جن میں میرے کزنز، بواۓ فرینڈز،اور انجان لوگ بھی شامل ہیں. اکثر لوگوں نے مجھے صرف ایک رنڈی سمجھ کر چودا آج کی کہانی میرے ایک کزن سے ہوئی چدائی کی کہانی ہے جو سچ پر مبنی ہے
اس کا نام جہانگیر ہے ہم دونوں میں بچپن سے ہی بہت اچھی دوستی ہے ہم بچپن ایک ساتھ کھیلتے ہم 10 سال کی عمر تک ایک ساتھ نہاتے ایک طرح سے اس نے بچپن میں میری چوت اور میں نے اس کا لنڈ جو کہ اس وقت للی تھی کو دیکھا لیکن کبھی چدائی نہیں ہوئی تھی شادی کے بعد شوہر جب uk گۓ تو میں کچھ دنوں کے لئے میکے گئی جہانگیر جو لاہور میں پڑھتا تھا وہ بھی آیا ہوا تھا اس سے ملکر بہت خوش ہوئی وہ اب پہلے جیسا کمزور نہیں بلکہ ایک سمارٹ مرد لگ رہا تھا اور نہایت ہی ہنسانے والا بھی اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا فضیلہ بوہوت خوبصورت ھوگئی ہو مجھے اس کا اس طرح سے تعریف کرنا اچھا لگا پھر ہم اکھٹے گھومتے کھاتے اور موج مستی میں رہتے ہم اکثر کرککٹ کھیلتے اور جب میری بیٹنگ ہوتی تو وہ اکثر میرے قریب کھڑے ہو کر فیلڈنگ کرتا اور اس کی نظر بال کی بجانےمیری چھاتیوں پر ہوتی چوں کہ میں لوز گلے کی قمیض thee پہنتی تو اس کو بوہوت کچھ نظر آجاتا تھا وہ اکثر مذاق مذاق میں میری چھاتیوں کو چھو لیتا تھا. پھر میرے بھیا کو بزنس کے سلسلے میں ھونگ کانگ جانا پڑا تو میں اور جہانگیر اس کو ائرپورٹ چھوڑنے گۓ واپسی پر رات کے ٢ بج رہے تھے ہم نے ایک آئس کریم کی دوکان پر رکھ کر آئس کریم کھائی باتوں باتوں میں میں نے اس سے پوچھا جنگی کوئی گرل فرینڈ ہے جس سے تم شادی کرو تو وہ ہنسنے لگا بولا ہاں تھی لیکن اس کی شادی ہو گئی ہے میں نے پوچھا کون تھی اس نے بولا تم تھی میں تم سے محبت کرتا تھا کرتا ہوں کرتا رہوں گا میں بولی تو کہہ دینا تھا میں تمہارا انتظار کرلیتی جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے.میں نے اس کے آنسووں کو اپنے ہاتھ سے پونچھا مجھے اس پر ترس بھی آرہا تھا اور پیار بھی.
پھر ہم گھر چلے گئے دیں گزر نے لگے پھر ایک دیں گھر والوں کو ایک فوتگی میں سیالکوٹ جانا پڑا میں نے اور جہانگیر نے جانے سے انکار کیا میرا جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا اور جہانگیر کو اپنے ایگزام کی تیاری کرنی تھی تو امی ابو اور انکل کی فیملی والے چلے گئے گھر میں صرف میں اور جہانگیر تھے چونکہ گھر والے ہم کو بہن بھائی سمجتھے تھے اس لئے ان کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا ہم دونوں نے ان کو سٹیشن پر رخصت کیا پھر ہم گھر آگۓ گھر میں میں نے دونو کے لئے کھانا پکایا دوپہر کو مل کر کھایا پھر کچھ دیر آرام کے لئے اپنے کمروں میں گئے پھر عصرکے وقت اٹھی تو وہ بھی جاگا ہوا تھا میں نے اس کو چاۓبنا کر دی چاۓ کے بعد اس نے بولا فضی کرکٹ کھیلنےکا موڈ ہے کیا؟ میں بولی ہاں کیوں نہیں میں جاکر بیٹ اور بال لے ائی اس نے مجھے پھلے بیٹنگ دی میری لوز گلے والی قمیض تھی جس میری چھاتیاں کچھ کچھ نظر آتی تھیں اس نے مجے تین بالوں میں ہی آوٹ کردیا پھر اس کی بیٹنگ میں اس نے مجھے بہت تھکا دیا میں نے اس کو بولا آوٹ ہوجاؤ ورنہ میں نہیں کھیلتی اس نے بولا کیوں؟ میرے منہ سے نکل گیا یار میری پھٹ گئی اس نے بولا کیا میں شرما گئی پھر اس نے بولا یار میں تمہاری کیا پھاڑوں گا وہ تو پھلے سے ہی پھٹی ہوئی ہے. میں بولی کیا مطلب وہ بولا کچھ نہیں خیر بات آئی گئی ہو گئی.
پھر ہم نے چینج کیا اور باہر چلے گۓگومننے پھرنے کے لئے رات کو ہم دیر سے آۓ کھانا بھی باہر کھایا کافی بار میرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رہا مجھے ایک انجانی خوشی رہی گھر پونچھتے ہی میں صوفے پر لیٹ گئی اس نے tv لگایا ہم کچھ دیر tv دیکھتے رہے پھر اس نے مجھے بولا فضی تم میرے لئے کافی بندو پلیز میں بولی یار تم جو بولو میں حاضر ہوں اس نے بولا سوچ لو ایسا نہ ہو پھر پچھتاؤ میں بولی کبھی نہیں پچھتاؤں گی میرے آقا. اس نے بولا دیکھیں گے پھر میں اس کے لئے کافی بنانے کے لئے میرا دوپٹہ وہیں tv لاؤنج میں رہ گیا تھا وہ میرے پیچھے پیچھے کچن آیا اور سنک پر بیٹھ گیا اور میری چھٹیوں کو دیکھنے لگا میں بولی جنگی کیا دیکھ رہے ہو اس نے بولا فضی تم کو یاد ہے جب ہم اکھٹے نہاتے تھے میں بولی ہاں پھر اس نے بولا اس وقت تمہارے یہ تو نہیں تھے نامیں بولی کیا اس نے میری چھاتیوں کی طرف اشارہ کیا میں بولی ہاں اس وقت ہم بچے تھے اس نے بولا ہاں پھر اس نے پوچھا فضی کیا میں ان کو چھوسکتا ہوں میں بولی پاگل ہو کیا اس نے بولا پلیز اور کچھ نہیں کروں گا مجھے تمہارے بوبز بوہوت اچھے لگتے ہیں پلیز مجھے چھونے دو میں نے بولا صرف ان کو نا بولا ہاں میں بولی ٹھیک ہے اس نے مجھے اپنے قریب کر لیا اور اپنے دونوں ہاتھ میری چھاتیوں پر رکھ دیے اور انکو دبانے لگا میری چھاتیاں بھی ہارڈ ہونے لگیں اور میری چوچیاں تن گئیں میری چوت گیلی ہونے لگی پھر اس نے میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کافی لے کر لاؤنج چلا گیا میرے بدن کو بہت دنوں کے بعد کسی مرد نے چھوا تھا اور ایک آگ سے میرے بدن میں لگ گئی تھی لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور اپنے کمرے میں چلی گئی رات بھر میں جلتی رہی مجے سیکس کا بخار چڑھ گیا بوہوت بار سوچا کہ جنگی کے پاس جاؤں اور اپنی چوت کی پیاس بجھاؤں لیکن پھر انگلیاں ڈال کر چوت کو تسلی دی اور بہت دیر بعد ننگی ہی سوگئی صبح اٹھی اور کپڑے پہنے پھر اس کے کمرے گئی اس کو اٹھایا اس کو اٹھاتے وقت میری نظر اس کے لنڈ پر پڑی جو کہ فل کھڑا تھا پھر میں باھر آگئی ناشتہ بنانے لگی ناشتہ جب تیار ہوا تو وہ بھی ڈائننگ ٹیبل پر تھا میں رات کے کپڑوں میں تھی اور برا بھی نہیں پہنی ہوئی تھی میری قمیض ٹرانسپیرنٹ تھی جج میں میرا اوپر کا جسم کافی حد تک نظر آرہا تھا اور اس کی نظر میرے جسم کا طواف کررہی تھی.
میں اس کی نظروں کو سمجھ رہی تھی لیکن انجان بنی رہی پھر ناشتے کے بعد اس نے بولا فضی تم میرے کمرے میں آؤ میں بولی ٹھیک ہے برتن کچن میں رکھنے کے بعد میں اس کے کمرے میں گئی تو اس نے مجھے بولا بیٹھو میں بیٹھ گئی تو اس نے بولا فضی میں تم سے بوہوت محبت کرتا ہوں پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگۓ میں نی اس کو اپنی بانہوں میں بھر لیا میں اس کے دکھہ کو سمجھتی تھی کچھ در رونے کے بعد اس نے مجھے اپنے سے لپٹا تے ہوتے بیڈ پر لیٹ گیا میں اب اس کی بانہوں میں تھی اس نے مجھے زور سے پکڑا ہوا تھا کہ جیسے میں اس سے دور جارہی ہوں پھر اس نی بولا فضی میں تمہارے ساتھہ نہانا چاہتا ہوں میں بولی اب میں کسی کی بیوی ہوں میں ایک شادی شدہ عورت ہوں اس نی بولا فضی مجھے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے شادی سے پھلے ہی سیکس کیا ہوا ہے میں بولی جھوٹ مت بولو اس نے بولا فضی مجھے معلوم ہے یار میں بولی کس سے کیا میں نے اس نے بولا اگر بتا دیا پھر تم نہاؤگی میں بولی ہاں تو اس نے بولا تم نے پہلی بار افروز سے نہیں چدوایا سوات میں میں حیران ہوگئی اس نے بولا یہ سچ نہیں ہے کیا؟ میں بولی اور اس نے بولا اپنے ٹیچر سے بھی چدوایا میں نے پوچھا تم کو کس نے بتایا اس نے بولا چھوڑو اس بات کو میں بولی بتاؤ نا اب جو تم بولو گے وہ ہی ہوگا اس نے بولا افروز نے خود بتایا تمہاری شادی کے دن کہ وہ تم کو بوہوت بار چود چکا ہے.
پھر اس نے مجھے اٹھایا اور باتھ روم میں لے گیا وہاں اس نے میری قمیض اتاری پھر اس نے شلوار کو نیچے کھینچی میں نے لاسٹک پہنی تھے شلوار آسانی سے اتر گئی میں جنگی کے سامنے ننگی تھے پھر اس نے مجھے بولا میرے کپڑے اتارو میں نے پھلے اس کی قمیض کو اتارا پھر اس کے پاجامے کا ناڑا کھینچا اور اس کے پاجامے کو اترنے لگی اتارتے ہوۓ اس کا لنڈ میرے چہرے سے ٹکرایا میں ایک بار پھر 14 سال پھلے کی طرح اس کے سامنے ننگی تھی اس نے شاور کھول دیا مجھ کو اپنے سے لپٹا لیا اور بولا فضی کاش تم ہمیشہ یوں ہی میرے ساتھ نہاتی مگر تمہاری چوت میں تو آگ لگی تھی جو شادی کرلی لیکن کیا فائدہ آج بھی تم پیاسی ہو میں اس کی بانہوں میں تھی اور اس کا لنڈ میری چوت کو ٹچ ہورہا تھا پھر اس نے شمپو لیا اور میرے جسم کو دھونے لگا میرے جسم پر اپنا حق جتارہا تھا میری چھاتیوں کو خوب دبا رہا تھا پھر نیچھے ہاتھ لی جانے لگا پھر اس نے مجھے بیٹھا دیا اور میری ٹانگیں کھول دیں اور چوت کو دیکھ کر بولا فضی جب ہم بچپن میں نہاتے تھے تو تمہاری چوت کتنی معصوم تھی ایک کلی کی طرح اور آج دیکھو چدنے کے بعد ایک دم گلاب کا پھول ہوگئی ہے بولو کیا میں بھی اس چوت کا مالک بن سکتا ہوں میں بولی جان آج میں تمہاری ہوں پھلے تمہارا لنڈ بھی تو بہت چھوٹا سا تھا آج دیکھو میری چوت کے لئے کتنا بیتاب ہے وہ بولا یہ ہمیشہ سے ہی تیری چوت کا طلبگار رہا ہے پھر اس نے خوب رگڑھ کر میری چوت کو گرم کیا میری چوت گیلی تھی پھر ہم نہاے پھر اس نے مجھے تولیےسے خشک کیا اور میں نے اس کو اس نے مجھے اپنی گود میں اٹھایا اور بیڈروم لی آیا مجھے اس نے بیڈ پر لٹایا اور میری ٹانگیں کھول کر اپنی انگلی میری چوت میں ڈال دی اور دوسرے ہاتھ سے میری چھاتیوںکو دبانے لگا میں مست ہورہی تھی پھر اس نے مجھے بولا لنڈ منہ میں لیتی ہو میں نے بولا نہیں اس نے بولا افروز کا تو لیتی تھی نا تو میرے لنڈ پر کانٹے لگے ہیں کیا میں بولی جب سب معلوم ہے تو پھر کیوں پوچتھے ہو اس نے میری چوت کو چھوڑا اور اپنا ٧.٤ کا لنڈ میرے منہ میں دیا میں نے بھی بھوکی رنڈی کی طرح اس کو چوپے لگانے لگی پھر اس نے بولا اب میں تجھے چودوں گا میں بولی افروز تو میری چوت بھی چاٹتا تھا اس نے بولا پھر کبھی یار آج تو مجھے تمہاری چوت کو چودنے دو پھر وہ میری چوت کے پاس آیا اور اس نے میری دہکتی چوت پر اپنا لنڈ رکھا اور اندر کردیا اوہ اوہ اوہ میری چوتکو اسکی منزل مل گئی اور جہانگیر کو اس کا پیار اس نے میری چوت کو تیز تیز جھٹکے دئےمیری آوازوں سے پورا کمرہ گونج رہا تھا آہ آہ اف ف ف ف ف ھوی وہ میری چھاتیوں کو اپنے گرم ہاتوں سے زور زور سے دبا رہا تھا وہ بول رہا تھا فضی میں کب سے تم کو چودنا چاہتا تھا لیکن تم اب ای میرے لنڈ کے نیچے میں سمجھو ہواؤں میں تھی اس نے پھر مجھے گھوڑھی بنایا اور میری چوت میں پھر سے اپنا لنڈ زور سےڈال دیا میں چیخ اٹھی اوہ آہستہ تو اسنےبولا چپ رنڈی میں آج تجھے چود چود کر مار ڈالوں گا مادر چود لوگوں سے تو ایسے آرام سے چدواتی ہے پھر اس نے زور زور سے جھٹکے دئے اسکا ہر جھٹکا سمجھو مجھے ایک نئی لذت سے دوچار کر رہا تھا میں چھوٹنے والی تھی اس کو بولا جنگی زور سے اور زور سے چود اپنی بہن کو وووووووووو آ ہ ہ ہ ف ف ف ف ماں میں چھوٹنے والی ہوں وہ بولا بس صبردونوں ساتھ چھوٹ تے ہیں میں بولی جلدی نکالو میرے من میں میں فارغ ہو جاؤ لیکن جب تک دیر ہوچکی تھی اس نے میری چوت میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا پھر وہ میرے اوپر ہی لیٹ گیا اس کا لنڈ آھستہ آھستہ میری گانڈ پر چھوٹا ہوا پھر وہ بولا فضی تم نے گانڈ بھی مروائی ہے ہے نا میں بولی ہاں وہ بولا کس نے پھلے گانڈ میں چودا میں نے بولا ٹیچر نے پھر شوہر نے پھر اس مجھ سے الگ ہوتے ہوۓ پوچھا اور چودا کتنوں نے میں نے سب کا بتادیا.
پھر میں نے پوچھا کتنیوں کو اب تک چودا ہے اس نے بولا 5 کو میں نے پوچھا سب سے پہلے کسکو چودا وہ بولا تمہاری بھابھی کو میں بولی کب اس نے بولا اس کی شادی سے 2 ماہ پھلے پھر جب تک گھر والی نہیں آۓ ہم میاںبیوی کی طرح رہے گھر میں تو وہ مجھے ننگا ہی رکھتا اور بہت بار اس نے میری گانڈ بھی چودی پھر جب گھر والی آۓ تو اس نے مجھے اور بھابھی کو اکھٹے بھی چودا وہ کہانی پھر کبھی لکھوں گ

3 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete